جمعرات

صفر كا مہينہ

الحمد للہ والصلاۃ والسلام على رسول اللہ:

وبعد:

سب تعريفات اللہ سبحانہ وتعالى كے ليے ہيں، اور اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم پر درود و سلام كے بعد:

ھجرى سال كے بارہ مہينوں ميں سے صفر كا مہينہ بھى ہے جو ماہ محرم كے بعد آتا ہے، بعض كہتے ہيں كہ اسے صفر اس ليے كہا جاتا ہے كہ: اس ماہ ميں مكہ شہر اہل مكہ سے خالى ہونے كى بنا پر اسے صفر كہا جاتا ہے.

اور ايك قول يہ بھى ہے كہ: ماہ صفر كو صفر اس ليے كہا جاتا ہے كہ: اس ماہ ميں قبائل كے خلاف چڑھائى كى جاتى تھى اور جو بھى انہيں ملتا اسے مال سے خالى كرديتے ( يعنى اس كا سارا سامان چھين ليتے تو وہ بغير كسى سامان كے رہ جاتا ) ديكھيں: لسان العرب لابن منظور جلد نمبر ( 4 ) صفحہ ( 462-463 ).

اس ماہ كے متعلق مندرجہ ذيل نقاط ميں بحث كى جائے گى:

1 -  جاہلى عرب كے ہاں اس كے متعلق كيا وارد ہے.

2 -  اہل جاہليت كى مخالفت ميں شرع ميں كيا وارد ہوا ہے.

3 -  اس ماہ كے متعلق اسلام سے منسوب كردہ بدعات اور فاسد اعتقادات

4 -  نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى زندگى ميں اس ماہ كے اندر ہونے والے غزوات اور جنگيں، اور اہم قسم كے واقعات و حادثات.

5 -  ماہ صفر كے بارہ ميں وارد شدہ جھوٹى مكذوب احاديث.

اول:

جاہلى عرب كے ہاں اس كے بارہ ميں وارد ہونے والى اشياء:

عرب كے ہاں اس مہينہ كے متعلق دو عظيم قسم كى منكر اور برائياں پائى جاتى تھيں:

پہلى: اس ماہ كو آگے پيچھے كركے اس ماہ سے كھيلنا.

دوسرى: اس ماہ مبارك سے نحوست لينا ( يعنى اسے منحوس سمجھتے تھے ) .

1 -  يہ تو معلوم شدہ بات ہے كہ اللہ سبحانہ وتعالى نے ہى سال كو پيدا كيا ہے اور اس كے مہينوں كى تعداد بارہ ہے، جن ميں سے اللہ تعالى نے چار مہينوں كو حرمت والا قرار ديا ہے، اور ان مہينوں كى شان و عظمت و احترام كى بنا پر ان مہينوں ميں جنگ وجدال اور لڑائى كرنا حرام ہے، يہ چارہ ماہ مندرجہ ذيل ہيں:

ذوالقعدۃ ، ذوالحجۃ، محرم، اور رجب،

اور اس كى تصديق اللہ تعالى كا مندرجہ ذيل فرمان ہے:

ارشاد بارى تعالى ہے:

{بلا شبہ مہينوں كى تعداد اللہ تعالى كے ہاں كتاب اللہ ميں بارہ ہے، اسى دن سے جب سے آسمان و زمين كو اس نے پيد كيا ہے، ان ميں سے چار حرمت والے ہيں، يہى مضبوظ اور پختہ اور درست دين ہے، تم ان مہينوں ميں اپنے آپ پر ظلم نہ كرو} التوبۃ ( 36 )

اور مشرك بھى اس بات كا علم ركھتے اور اسے جانتے تھے ليكن اس كے باوجود وہ اسے اپنى خواہشات كے مطابق آگے پيچھے كرتے رہتے تھے، اور اسى ميں يہ بھى شامل تھا كہ وہ" محرم كے بجائے صفر كا مہينہ بنا ليتے تھے" !

اور ان كا اعتقاد يہ تھا كہ حج كے مہينوں ميں عمرہ كرنا سب سے بڑا فجور والا كام ہے، اس كے متعلق اہل علم كے چند ايك اقوال ذيل ميں ذكر كيے جاتے ہيں:

ا -  ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ: وہ يہ سمجھتے تھے كہ اشہر الحج يعنى حج كے مہينوں ميں عمرہ كرنا زمين ميں بہت بڑا فجور والا كام ہے، اور وہ محرم كے مہينہ كو صفر بنا ليتے اور يہ كہتے:

جب اونٹوں كى پشت صحيح ہو جائے اور اس كے اثرات مٹ جائيں، اور صفر كا مہينہ ختم ہو جائے، تو عمرہ كرنے والے كے ليے عمرہ حلال ہو جائے. صحيح بخارى حديث نمبر ( 1489 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1240 ).

ب -  ابن العربى كا كہنا ہے:

دوسرا مسئلہ: النسيئ كى كيفيت:

اس ميں تين قول ہيں:

پہلا قول:

ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ جنادہ بن عوف بن اميہ كنانى ہر برس موسم ميں آتا اور يہ منادى كرتا: خبردار ابو ثمامہ كو نہ تو عيب ديا جاتا ہے اور نہ ہى بات مانى جاتى ہے، خبردار سال كے شروع ميں صفر حلال ہے، تو ہم اسے ايك سال حرام قرار ديتے ہيں اور ايك سال حلال، اور وہ ہوازن اور غطفان اور بنو سليم كے ساتھ تھے.

اور ايك لفظ ميں ہے كہ وہ يہ كہتا:

ہم نے محرم كو پہلے اور صفر كو بعد ميں كرديا ہے، پھر وہ اگلے برس آتا تو يہ كہتا: ہم نے صفر كو حرام قرار ديا اور محرم كو موخر كرديا؛ تو يہ تاخير اور نسيئ ہے.

دوسرا قول:

زيادہ: قتادہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: گمراہ لوگوں ميں سے ايك قوم نے صفر كو اشہر الحرم يعنى حرمت والے مہينوں ميں شامل كرديا، ان لوگوں كا ليڈر موسم ( يعنى موسم حج ) ميں كھڑا ہو كر يہ كہتا: خبردار تمہارے معبودوں نے اس برس محرم كو حرام كر ديا ہے، تو وہ اس برس محرم كو حرمت والا قرار ديتے، پھر وہى شخص اگلے برس يہ اعلان كرتا كہ: تمہارے معبودوں نے صفر كو حرام كيا ہے تو وہ اس برس صفر كو حرمت والا قرار دے ليتے، اور يہ كہتے صفران " دو صفر"

اور ابن وہب اور ابن القاسم نے امام مالك رحمہ اللہ تعالى سے ايسا ہى روايت كيا وہ كہتے ہيں:

اہل جاہليت اسے دو صفر بناتے تھے، اسى ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے " لا صفر " فرمايا، اور اشہب نے بھى ان سے ايسا ہى روايت كيا ہے.

تيسرا قول:

تبديل حج: ايك دوسرى سند كے ساتھ مجاہد رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: فرمان بارى تعالى:  {النسيئ تو كفر ميں زيادتى كے سوا كچھ نہيں}

مجاہد كہتے ہيں: دو برس وہ ذوالحجہ ميں حج كرتے اور پھر دو برس محرم ميں حج كرتے، پھر دو برس صفر ميں حج كرتے، تو اس طرح وہ ہر برس ايك ماہ ميں دو سال حج كرتے تھے، حتى كہ ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ كا حج ذوالقعدہ كے مہينہ كے موافق آيا اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ذوالحجہ ميں حج كيا، اور اسى ليے صحيح حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اے لوگو! ميرى بات غور سے سنو اس ليے كہ مجھے علم نہيں ہو سكتا ہے ميں اس دن كے بعد اس موقف اور جگہ ميں تم سے دوبارہ ملاقات نہ كر سكوں، اے لوگو!

بلا شبہ تمہارے خون اور تمہارے مال تم پر اس دن تك حرام ہيں جس دن تم اپنے رب سے ملاقات كرو گے، يہ حرمت ايسى ہے جيسى اس حرمت والے مہينہ كے اس حرمت والے دن كى تمہارے اس حرمت والے شہر ميں ہے، اور بلا شبہ تم اپنے رب سے ملو گے تو تمہارا رب تم سے تمہارے  اعمال كے بارہ ميں سوال كرے گا، بلاشبہ ميں نے تبليغ كردى اور پيغام پہنچا ديا، لہذا جس كسى كے پاس بھى كوئى امانت ہے وہ اسے امانت والے كو لوٹا دے، اور بلا شبہ ہر قسم كو سود ختم كر ديا گيا ہے، اور تمہارے ليے تمہارے اصل مال ہيں، نہ تو تم ظلم كرو اور نہ ہى تم پر ظلم كيا جائے گا، اللہ تعالى كا فيصلہ ہے كہ سود نہيں، اور بلاشبہ عباس بن عبدالمطلب كا سارا سود ختم كر ديا گيا ہے، اور جاہليت كا ہر خون ختم كر ديا گيا ہے، اور تمہارا سب سے پہلا خون جسے ميں معاف كرتا ہوں وہ ابن ابى ربيعہ بن حارث بن عبدالمطلب كا ہے جو بنو ليث ميں دودھ پيتا تھا تو اسے ھذيل قبيلہ نے قتل كرديا، اور يہ جاہليت كے خونوں ميں سے پہلا خون ہے جسے ميں ختم كرتا ہوں.

اما بعد: اے لوگو! بلاشبہ شيطان اس سے نااميد ہو چكا ہے كہ تمہارى اس سرزمين ميں اس كى عبادت كى جائے، ليكن اس كے علاوہ جن كاموں كو تم حقير سمجھتے ہواگر اس ميں اس كى اطاعت كى جائے تو وہ اس پر راضى ہو گا، لہذا تم اپنے دين پر اس سے بچ كر رہو، اور بيشك النسيئ ( مہينوں كو آگے پيچھے كرنا ) كفر ميں زيادہ ہے جس سے كافر لوگ گمراہ ہوتے ہيں، اس قول تك كہ اللہ تعالى نے جو حرام كيا ہے، اور بلاشبہ زمانہ اسى طرح گھوم گيا ہے جس طرح آسمان و زمين كے پيدا كرنے كے وقت تھا، اور بلا شبہ اللہ تعالى كے ہاں مہينوں كى تعداد بارہ ہے، جن ميں سے چار حرمت والے ہيں، تين تو مسلسل اور پے در پے ہيں، اور ايك مضر قبيلہ والا رجب، جو جمادى اور شعبان كے درميان ہے" اس كے بعد سارى حديث ذكر كى .

ديكھيں: احكام القرآن ( 2 / 503 - 504 ).

2 -  اہل جاہليت صفر كے مہينہ كو منحوس سمجھتے اور اس سے نحوست پكڑتے تھے اور اسلام سے منسوب بعض لوگوں ميں آج بھى يہ چيز باقى ہے.

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" نہ تو كوئى عدوى ( متعدى بيمارى ) ہے اور نہ ہى طيرۃ ( نحوست ) اور نہ ہى ہامۃ اور نہ صفر ہے، اور جذام والے سے اس طرح بھاگو جس طرح شير سے بھاگتے ہيں" صحيح بخارى حديث نمبر ( 5387 ) صحيح مسلم ( 2220 ).

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

صفر كى كئى ايك شرح اور تفسير كى گئى ہيں:

اول:

يہ معروف صفر كا مہينہ ہے، عرب لوگ اس كے ساتھ نحوست پكڑتے تھے.

دوم:

يہ پيٹ كى بيمارى ہے جو اونٹ كو لگتى ہے، اور ايك اونٹ سے دوسرے اونٹ تك پہنچتى ہے، تو اس كا عدوى پر عطف خاص كا عام پر عطف كے باب سے ہو گا.

سوم:

صفر: يہ صفر كا مہينہ ہے: اور اس سے مراد وہ تقديم وتاخير ہے جو كفار كيا كرتے تھے، اور محرم كے مہينہ كى حرمت كو صفر تك مؤخر كرديتے تھے، ايك سال تو اسے حلال كرتے اور دوسرے برس اسے حرام قرار ديتے تھے.

اور ان ميں راجح يہ ہے كہ: اس سے صفر كا مہينہ مراد ہے، كيونكہ دور جاہليت ميں لوگ اسے منحوس خيال كرتے تھے.

اور وقت اور زمانے كو اللہ تعالى كى تقدير پر كوئى تاثير نہيں، لہذا يہ بھى باقى اوقات اور زمانوں كى طرح ہى ہے جن ميں خير و شر مقدر كيا جاتا ہے.

اور بعض لوگ مثلا جب صفر كى پچيس تاريخ كو اپنے كسى خاص  كام سے فارغ ہوتے ہيں تو اس كى تاريخ لكھتے ہوئے كہتے ہيں:

خير كے مہينہ صفر كى پچيس تاريخ كو يہ كام ختم ہوا، يہ بدعت كا مداوا بدعت كے ساتھ ہے، يہ مہينہ نہ تو خير كا ہے اور نہ ہى شر كا؛ اسى ليے بعض سلف حضرات نے جب كسى كو الو كى آواز نكالنے پر ان شاء اللہ خير ہے كہنے پر انكار كيا لہذا نہ تو خير اور نہ ہى شر كہا جائے گا، بلكہ يہ الو بھى باق پرندوں كىطرح ہى بولتا ہے .

يہ وہ چار اشياء ہيں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جن كى نفى فرمائى ہے، يہ سب اللہ تعالى پر توكل اور بھروسہ كے وجوب اور صدق عزائم پر دلالت كرتا ہے كہ ان امور كے سامنے اسے كمزور نہيں ہونا چاہيے.

اور جب مسلمان شخص اپنا دھيان اور خيال ان اشياء كى طرف كرے گا تو وہ دو حالتوں سے خالى نہيں ہو گا:

پہلى حالت:

يا تو وہ اسے قبول كرتے ہوئے اپنے كام كو سرانجام دے گا يا پھر اس سے باز رہے گا، تو اس وقت اس نے اپنے اعمال كو ايسى چيز سے معلق كرديا جس كى كوئى حقيقت ہى نہيں.

دوسرى حالت:

وہ اسے قبول نہ كرتے ہوئے اپنا كام سر انجام دے گا اور اس كى كوئى پراہ بھى نہيں كرے گا، ليكن اس كے نفس ميں كچھ نہ كچھ غم يا پريشانى رہے گى، يہ اگرچہ پہلى حالت سے آسان اور ہلكى ہے ليكن اسے چاہيے كہ وہ اس كى دعوت دينے والے امور كو مطلقا قبول نہ كرے، بلكہ اسے اللہ تعالى پر بھروسہ اور توكل كرنا چاہيے.

اور ان چار امور كى نفى سے مراد اس كے وجود كى نفى نہيں كيونكہ يہ موجود ہيں، ليكن يہاں تو صرف اس كى تاثير كى نفى ہے، اس ليے كہ موثر تو اللہ تعالى ہے، لہذا جو سبب معلوم ہو وہ سبب صحيح ہے، اور جو سبب صرف واہمہ پر مبنى ہو وہ سبب باطل ہے، اور بنفسہ اس كى تاثير اور اس كى سببيت كى نفى ہو گى.

ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى ( 2 / 113-115 ).

دوم:

شرع ميں وارد شدہ اہل جاہليت كى مخالفت:

صحيحين ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث جو اوپر بيان كى جا چكى ہے، اس ميں يہ بيان كيا گيا ہے كہ اہل جاہليت كا صفر كے مہينہ كے متعلق اعتقاد مذموم تھا، اور صفر كا مہينہ اللہ تعالى كے مہينوں ميں سے ايك مہينہ ہے، اس كا كوئى ارادہ نہيں بلكہ يہ مہينہ بھى اللہ كى تسخير سے گزر رہا ہے.

سوم:

اس ماہ كے متعلق اسلام سے منسوب لوگوں ميں پائے جانے والے فاسد اعتقادات اور بدعات:

1 -  مستقل فتوى كميٹى سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:

ہمارے ملك ميں بعض علماء كرام كا خيال ہے كہ صفر كے مہينہ كے آخرى بدھ ميں چاشت كے وقت ايك سلام كے ساتھ چار ركعت نفل كرين ہر ركعت ميں سترہ ( 17 ) بار سورۃ فاتحہ اور سورۃ الكوثر اور پچاس بار سورۃ الاخلاص ( قل ہو اللہ احد ) اور معوذتين ( سورۃ الفلق اور سورۃ الناس ) ايك ايك بار پڑھيں، ہر ركعت ميں ايسا ہى كريں اور سلام پھيرى جائے، اور جب سلام پھيرى جائے تو تين سو ساٹھ( 360 ) بار{الله غالب على أمره ولكن أكثر الناس لا يعلمون}اور تين بار جوہر كمال پڑھنا مشروع ہے، اور سبحان ربك رب العزة عما يصفون ، وسلام على المرسلين ، والحمد لله رب العالمين پڑھ كر ختم كى جائے، اور فقراء و مساكين پر كچھ روٹى صدقہ كى جائے.

اور اس آيت كى خاصيت يہ ہے كہ يہ صفر كے مہينہ كے آخري بدھ كو پہنچنے والى تكليف اور پريشانى كو دور كرتى ہے.

اور ان كا كہنا ہے كہ: ہر برس تين سو بيس تكليفيں اور آزمائشيں اترتى ہيں، اور يہ ساري كى سارى ماہ صفر كے آخرى بدھ ميں ہيں، تو اس طرح پورے سال ميں يہ دن سب سے مشكل ترين دن ہوتا ہے، اس ليے جو بھى اس مذكورہ كيفيت ميں نماز ادا كرے گا اللہ تعالى اپنے فضل و كرم سے اس دن ميں نازل ہونے والى سارى تكليفوں پريشانيوں اور آزمائشوں سے اس كى حفاظت فرمائے گا، تو كيا يہى حل ہے؟

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام كا جواب تھا:

الحمد للہ و الصلاۃ والسلام على رسولہ و آلہ و صحبہ، وبعد:

اللہ تعالى كى تعريفات اور اس كى رسول صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر درود و سلام كے بعد:

سوال ميں مذكور نوافل كے متعلق كتاب و سنت ميں كوئى اصل اور دليل ہمارے علم ميں نہيں، اور ہمارے نزديك تو امت كے سلف صالحين ميں سے كسى ايك سے بھى ثابت نہيں كہ اس پر كسى نے عمل كيا ہو، بلكہ يہ بدعت اور منكرات ميں سے ہے.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمان ثابت ہے كہ:

" جس كسى نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جو ہمارے دين ميں نہيں تو وہ عمل مردود ہے"

اور ايك دوسرى حديث ميں ہے كہ:

" جس نے بھى ہمارے اس دين ميں كوئى نيا كام ايجاد كيا جو اس ميں نہيں تو وہ مردود ہے"

اور جس كسى نے بھى اس نماز اور اس كے ساتھ جو كچھ ذكر كيا گيا ہے كو نبى صلى اللہ عليہ وسلم يا كسى صحابى كى طرف منسوب كيا تو اس نے بہت عظيم بہتان بازى كى، اور وہ اللہ تعالى كى جانب سے جھوٹے اور كذاب لوگوں كى سزا كا مستحق ٹھرے گا.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميہ والافتاء ( 2 / 354 ).

2 - اور شيخ محمد عبد السلام الشقيرى كا كہنا ہے:

جاہلوں كى عادت بن چكى ہے كہ سلام والى آيات مثلا { سلام على نوح في العالمين}الايۃ لكھ كر برتنوں ميں ركھ كر ماہ صفر كے آخرى بدھ كو پيتے اور اس سے تبرك حاصل كرتے اور ايك دوسرے كو ہديہ اور تحفہ ميں ديتے ہيں، كيونكہ ان كا اعقاد ہے كہ اس سے شر اور برائى جاتى رہتى ہے، يہ اعتقاد باطل اور فاسد اور اس سے نحوست پكڑنا مذموم ، اور بہت ہى قبيح قسم كى بدعت ہے، جو شخص بھى كسى كو يہ عمل كرتے ہوئے ديكھے اس سے روكنا واجب اور ضرورى ہے.

ديكھيں: السنن و المبتدعات ( 111 - 112 ).

چہارم:

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى حيات مباركہ ميں اس ماہ كے اندر ہونے والے غزوات اور اہم واقعات:

ان كى تعداد تو بہت زيادہ ہے ليكن بعض كو اختيار كرنا ممكن ہے:

1 -  ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بنفس نفيس غزوہ ابواء كيا جسے ودان بھى كہا جاتا ہے، يہ غزوہ سب سے پہلا غزوہ ہے جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بنفس نفيس كيا، يہ غزوہ ہجرت كے بارہويں مہينہ كے آخر ميں ہوا، اور اس كا علم سفيد رنگ كا تھا جو حمزہ بن عبد المطلب رضى اللہ تعالى عنہ كے ہاتھ ميں ديا گيا، اور مدينہ كا امير سعد بن عبادہ رضى اللہ تعالى عنہ كو مقرر كيا گيا، قريش كے قافلہ كے حصول كے ليے ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم خاص كرمہاجرين ميں نكلے اور كچھ نہ ملا.

اس غزوہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس دور ميں بنو ضمرہ كے سردار مخشى بن عمرو الضمرى سے صلح اور معاہدہ كيا كہ نہ تو وہ خود اور نہ ہى بنو ضمرہ ان كے خلاف لڑائى كرينگے، اور نہ ہى وہ ان كے خلاف كسى دشمن كى مدد كريں گے اور ان كے خلاف دشمن كى تعداد ميں اضافہ كريں گے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے اور ان كے مابين ايك معاہدہ لكھا، اور نبى كريم صلى اللہ وسلم مدينہ سے پندرہ راتيں باہر رہے.

ديكھيں: زاد المعاد ( 3 / 164 - 165 ).

2 -  اور ان كا يہ بھى كہنا ہے كہ:

اور سن تين ہجرى صفر كے مہينہ ميں عضل اور قارۃ كے كچھ لوگ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئے اور انہوں نے اپنے اسلام لانے كا ذكر كيا اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے سوال كيا كہ دينى تعليم دينے كے ليے ان كے ساتھ كسى شخص كو بھيجا جائے اور وہ انہيں قرآن كريم كى بھى تعليم دے، تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان كے ساتھ -  ابن اسحاق كے قول كے مطابق -  چھ شخص روانہ كيے، اور -  امام بخارى كہتے ہيں كہ -  يہ دس افراد تھے اور مرثد بن ابو مرثد الغنوى كو ان كا امير بنايا ان ميں خبيب بن عدى رضى اللہ تعالى عنہ بھى تھے يہ ان كے ساتھ گئے اور جب جب الرجيع -  يہ حجاز والى جانب ھذيل كا ايك چشمہ تھا -  مقام پر پہنچے تو ان صحابہ كرام كے ساتھ غدارى كى اور ھذيل كو ان كے خلاف جنگ كى دعوت دى حتى كہ وہ آئے اور ان ميں سے اكثر كو قتل كر ديا اور خبيب بن عدى اور زيد بن دثنہ رضى اللہ تعالى عنہما كو قيد كر ليا اور انہيں مكہ لے جا كر فروخت كرديا ان دونوں نے بدر كى لڑائى ميں ان كے سرداروں كو قتل كيا تھا.

ديكھيں: زاد المعاد لابن قيم ( 3 / 244 ).

3 -  اور ايك دوسرى جگہ پر رقمطراز ہيں:

اور بالكل اسى ماہ ميں يعنى صفر چار ہجرى ميں بئر معونہ كا واقعہ پيش آيا، اس كا اختصار كچھ اس طرح ہے:

ابو براء عامر بن مالك جو ملاعب الاسنۃ كے نام سے معروف تھا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے اسلام كى دعوت دى ليكن اس نے اسلام قبول نہ كيا اور نہ ہى اس سے دور ہوا اور كہنے لگا اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم اگر آپ اپنے صحابہ كو اہل نجد كى طرف دعوت دينے كے ليے روانہ فرمائيں تو مجھے اميد ہے كہ وہ ان كى دعوت مان ليں گے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:

ميں ان كے بارہ ميں اہل نجد سے خوفزدہ ہوں، تو ابو براء كہنے لگا ميں انہيں اپنى پناہ ديتا ہوں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كے ساتھ ابن اسحاق كے قول كے مطابق چاليس اور صحيح بخارى كے مطابق ستر اشخاص روانہ كيے، صحيح بخارى والى بات ہى صحيح ہے، اور بنو ساعدہ كے ايك شخص منذر بن عمرو جو معنق ليموت كے لقب سے معروف تھا كو ان كا امير مقرر كيا، يہ لوگ مسلمانوں فضلاء اور بہتر قسم كے قراء كرام ميں سے تھے، اس كے ساتھ چل ديے جب بئر معونہ ( يہ حرہ بنو سليم اور بنو عامر كے علاقے كے درميان واقع ہے )پر پہنچے اور وہاں پڑاؤ كيا، پھر انہوں نے ام سليم كے بھائى حرام بن ملحان رضى اللہ تعالى عنہ كو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا خط دے كر اللہ كے دشمن عامر بن طفيل كے پاس روانہ كيا اس نے خط كو ديكھا تك بھى نہ اور ايك شخص كو حكم ديا جس نے حرام رضى اللہ تعالى عنہ كو پيچھے سے نيزہ دے مارا، جب حرام رضى اللہ تعالى عنہ كو نيزہ لگا اور انہوں نے خون ديكھا تو كہنے لگے: اللہ كى قسم ميں كامياب ہو گيا، پھر اللہ كے دشمن نے بنو عامر كو باقى صحابہ كرام كے ساتھ لڑنے كے ليے پكارا تو انہوں نے ابو براء كى پناہ كى بنا پر اس كى بات نہ مانى، تو اس نے بنو سليم كو لڑائى كے ليے بلايا تو عصيہ اور رعل اور ذكوان نے اس كى بات مانتے ہوئے لڑائى پر تيار ہوئے اور آكر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرام كو گھير ليا حتى كہ سب كو قتل كرديا صرف كعب بن زيد نجار رضى اللہ تعالى عنہ بچ گئے كيونكہ انہيں رخمى حالت ميں اٹھا ليا گيا اور يہ زندہ رہے حتى كہ جنگ خندق كے دن شہيد ہوئے.

اور عمرو بن اميہ ضمرى اور منذر بن عقبہ بن عامر مسلمانوں كى ضروريات كے ليے نكلے ہوئے تھے ان دونوں نے لڑائى والى جگہ كے اوپر پرندوں كو گھومتے ہوئے ديكھا تو منذر بن محمد وہاں آئے اور مشركوں سے لڑتے ہوئے اپنے ساتھيوں كے ساتھ ہى قتل كر ديے گئے اور عمرو بن اميہ ضمرى كو قيد كر ليا گيا، اور جب انہوں نے بتايا كہ وہ مضر قبيلہ سے تعلق ركھتے ہيں تو عامر نے اپنى والدہ كے ذمہ غلام كى جگہ انہيں آزاد كر ديا، عمرو بن اميہ واپس پلٹ پڑے جب صدر قناۃ كى قرقرہ نامى جگہ پہنچے اور ايك درخت كے سائے تلے آرام كرنے لگے تو وہاں بنو كلاب كے دوشخص اس كے ساتھ ہى پڑاء كے ليے اتر پڑے، جب وہ دونوں سو گئے تو عمرو نے انہيں قتل كر ديا ان كے خيال ميں انہوں نے اپنے ساتھيوں كا بدلہ ليا تھا، جبكہ ان دونوں كے پاس نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى طرف سے عہد وپيمان تھا ليكن عمرو رضى اللہ تعالى عنہ كو اس كا علم نہ ہو سكا ، جب وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس پہنچے تو جو كچھ انہوں نے كيا تھا اس كى خبر رسول كريم صلى اللہ وسلم كو دى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

تو نے تو ايسے دو شخص قتل  كيے ہيں جن كى ميں ضرور ديت ادا كرونگا.

ديكھيں: زاد المعاد لابن قيم ( 3 / 246 - 248 ).

4 -  اور ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا خيبر كى جانب نكلنا محرم كے آخر ميں تھا نہ كہ محرم كے اوائل ميں اور خيبر صفر ميں فتح ہوا.

ديكھيں: زاد المعاد ( 3 / 339-340 ).

5 -  اور ان كا يہ بھى كہنا ہے كہ:

قطبہ بن عامر بن حديدۃ رضى اللہ تعالى عنہ كا خثعم كى جانب سريہ كے متلق فصل:

يہ نو ( 9 ) ھجرى صفر كے مہينہ ميں ہوا، ابن سعد كہتے ہيں:

ان كا كہنا ہے كہ: رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے قطبہ بن عامر رضى اللہ تعالى عنہ كو بيس آدميوں كے ساتھ تبالہ علاقے كى جانب قبيلہ خثعم كى طرف بھيجا اور انہيں حملہ كرنے كا حكم ديا، تو يہ سب دس اونٹوں پر بارى بارى سوارى كرتے ہوئے روانہ ہوئے اور راستے ميں ايك شخص كو پكڑا اور اس سے پوچھنے لگے تو وہ ان پر مبہم سا رہا اور اونچى آواز ميں وہاں كے رہائشيوں كو پكار نے لگا اور انہيں آگاہ كرنے لگا تو انہوں نے اسے قتل كرديا، پھر وہ ركے رہے حتى كہ وہاں كے رہائشى سو گئے تو ان پر حملہ كرديا اور بہت شديد قسم كى لڑائى ہوئى جس ميں دونوں فريقوں كے بہت سے لوگ زخمى ہوئے، اور قطبہ بن عامر رضى اللہ تعالى عنہ نے كئى ايك قتل كيے اور ان كے جانور اور عورتيں اور بكرياں مدينہ كى جانب ہانك كر لے گئے.

اور قصہ ميں يہ بھى ہے كہ: وہ لوگ جمع ہو كر ان كا پيچھا كرنے كے ليے نكلے تو اللہ تعالى نے ان پربہت عظيم سيلاب بھيج ديا جو مسلمانوں اور ان كے مابين حائل ہو گيا تو مسلمان بكرياں اور عورتيں ہانك كے لے گئے اور وہ ديكھتے رہ گئے ان ميں مسلمانوں تك پہنچنے كى استطاعت ہى نہ رہى حتى كہ ان كى نظروں سے اوجھل ہو گئے.

ديكھيں: زاد المعاد ( 3 / 514 ).

6 -  اور ابن قيم رحمہ اللہ تعالى عنہ كا كہنا ہے كہ:

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس عذرۃ كا وقد صفر نو ھجرى ميں ميں آيا جس ميں بارہ افراد شامل تھے ان ميں جمرہ بن نعمان بھى تھا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سوال كيا بھئى كون لوگ ہو تو ان ميں سے بات كرنے والے شخص نے جواب ديا: جن كو آپ ناپسند نہيں كرتے ہم قصي كے ماں جائے بھائى بنو عذرۃ ہيں، ہم وہى ہيں جنہوں نے قصي كو مضبوط كيا تھا اور خزاعۃ اور بنو بكر كو بطن مكہ سے دور كر ديا تھا، اور ہمارى رشتہ دارياں ہيں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

تمہيں خوش آمديد ميں تمہيں خوب جانتا ہوں، تو وہ سب مسلمان ہو گئے اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں شام كے فتح ہونے اور ھرقل كا اپنے ملك سے ممتنع كى جانب بھاگ جانے كى خوشخبرى دى اور انہيں نجوميوں اور كاہنوں سے سوال كرنے سے منع فرمايا، اور جو وہ ذبح كرتے تھے ان كے ان ذبائع سے روك ديا، اور انہيں بتايا كہ ان كے ذمہ صرف ( عيد الاضحى  كى ) قربانى ہے، تو وہ كچھ دن دار رملہ ميں رہے اور پھر وہاں سے واپس چلے گئے.

ديكھيں: زاد المعاد ( 3 / 657 ).

پنجم:

ماہ صفر كے متعلق وارد شدہ موضوع اور جھوٹى احاديت:

ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

آنے والى تاريخ كے متعلق احاديث كى فصل:

اس ميں يہ ہے كہ: حديث ميں اتنى اتنى تاريخ ہو، مثلا قولہ: جب يہ سال ہو تو ايسے ايسے ہو گا. اور جب يہ يہ مہينہ ہو گا تو اس اس طرح كے واقعات ہونگے.

 اور جيسا كہ شرير اور كذاب كا قول ہے: جب محرم ميں چاند گرہن ہو گا، تو حكمران كا كام قتل و غارت اور مہنگائى ہو گا، اور جب صفر ميں چاند گرہن ہو تو اس اس طرح ہو گا.

اور يہ كذاب اسى طرح سارے مہينوں كے متعلق بيان كرتا چلا گيا ہے.

اس باب ميں جتنى بھى احاديث ہيں وہ سب جھوٹى اور موضوع اور بہتان ہيں.

ديكھيں: المنار المنيف ( 64 ).

واللہ اعلم

http://www.islamqa.com/ur/ref/books/88
blogger

پیر

محرم میں کثرت سے نفلی روزے رکھنے کی فضیلت

کیا محرم میں کثرت سے نفلی روزے رکھنا سنت ہے ، اور کیا اس مہینہ کو دوسرے مہینوں پر کوئي فضیلت حاصل ہے ؟
الحمدللہ
محرم کا مہینہ قمری مہینوں میں پہلا اورحرمت والے مہینوں میں سے ایک حرمت والا مہینہ ہے ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
{ یقینا اللہ تعالی کے ہاں کتاب اللہ میں مہینوں کی تعداد بارہ ہے اسی دن سے جب سے آسمان وزمین کو اس نے پیدا فرمایا ہے ، ان میں سے چار حرمت وادب والے ہیں ، یہی درست اورصحیح دین ہے ، تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو } التوبۃ ( 36 ) ۔
امام بخاری اورامام مسلم نے ابو بکرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت بیان کی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( آسمان وزمین کے پیدا ہونے سے ہی زمانہ اپنی حالت وہیئت پر گھوم رہا ہے سال کے بارہ مہینے ہیں جن میں سے چار حرمت وادب والے ہیں ، تین تو مسلسل ہیں ذولقعدہ ، ذوالحجۃ ، اورمحرم ، اورمضرکا رجب جوجمادی الثانی اورشعبان کے مابین ہے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 3167 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1679 ) ۔
اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سے یہ بھی ثابت ہے کہ رمضان المبارک کے بعد محرم کےمہینہ میں روزے افضل ہیں ۔
ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( رمضان المبارک کے روزوں کے بعد افضل ترین روزے محرم کے مہینہ کے رروزے ہیں ، اورفرضی نماز کے بعد افضل ترین نماز رات کی نماز ہے ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1163 ) ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ( اللہ تعالی کا مہینہ ) مہینہ کی اضافت اللہ تعالی کی طرف تعظیما ہے ، ملا علی قاری کہتے ہيں : اس سے پورا محرم کا مہینہ مراد ہے ۔
لیکن احادیث سے یہ ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک کے علاوہ کسی بھی مکمل مہینے کے روزے نہيں رکھے ، لھذا اس حدیث کو محرم کے مہنیہ میں زیادہ روزے رکھنے کی ترغیب پر محمول کیا جائے گا نہ کہ پورے مہینہ کے روزے رکھنے پر ۔
واللہ اعلم .


blogger

بدھ

حج كا طريقہ

ميں حج كا طريقہ تفصيلامعلوم كرنا چاہتا ہوں ؟
الحمد للہ:
فريضہ حج افضل ترين عبادت اور عظيم ترين اطاعت ميں شامل ہونے كے ساتھ ساتھ دين اسلام كا ايك عظيم ركن بھي ہے جس دين كولے كر محمد صلى اللہ عليہ وسلم مبعوث كئے گئے اسي دين اسلام كے علاوہ بندے كا دين بھي كامل نہيں ہوتا .
اور جب تك عبادت ميں دو چيزيں نہ پائي جائيں اس وقت تك اس عبادت كے ساتھ اللہ تعالى كا تقرب بھي حاصل نہيں ہوتا ، وہ اشياء مندرجہ ذيل ہيں :
پہلي : اخلاص : كہ وہ عبادت اللہ تعالى كے ليے خالص ہو اور اللہ تعالى كي رضا اور آخرت سنوارنے كے ليے كي جائے اور اس ميں كسي بھي قسم كي رياء دكھلاوا اور دنياوي طمع ولالچ شامل نہ ہو .
دوسري : اس عبادت ميں عملي اور قولي طور پر نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم كي اتباع وپيروي پائي جائے , اور نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم كي اتباع وپيروي اس وقت تك نہيں ہو سكتي جب تك رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كي سنت معلوم نہ ہو
اس ليے جوشخص بھي اللہ تعالى كي _ حج يا كوئي اور _ عبادت كرنا چاہے اس كے ليے ضروري اورواجب ہے كہ وہ اس ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا طريقہ سيكھے تاكہ اس كا عمل سنت كے مطابق وموافق ہو .
ہم مندرجہ ذيل سطور ميں سنت كے مطابق حج كا طريقہ مختصرطور پر بيان كرتے ہيں :
عمرہ كا طريقہ سوال نمبر ( 31819 ) كے جواب ميں بيان كيا جا چكا ہے عمرے كا طريقہ معلوم كرنے كے ليے اس جواب كا مطالعہ كريں .
حج كي اقسام :
حج كي تين اقسام ہيں : حج تمتع ، حج افراد ، حج قران
حج تمتع :
حج تمتع يہ ہے كہ : حج كے مہينوں ميں صرف عمرہ كا احرام باندھا جائے ( شوال ، ذوالقعدہ ، اور ذوالحجہ حج كے مہينے ہيں ، ديكھيں : شرح الممتع 7/62 ) لھذا جب حاجي مكہ پہنچے اور عمرہ كا طواف اور سعي كركے سرمنڈا لے يا پھر بال چھوٹے كروالے تو وہ احرام كھول دے اور جب يوم ترويہ يعني آٹھ ذوالحجہ والے دن صرف حج كا احرام باندھے اور حج كے سب اعمال مكمل كرے گا ، يعني حج تمتع كرنے والا عمرہ بھي مكمل كرے گا اور اسي طرح حج بھي .
حج افراد :
حج افراد يہ ہے كہ صرف اكيلے حج كا احرام باندھا جائے اور جب مكہ مكرمہ پہنچے تو طواف قدوم اور حج كي سعي كرلے نہ تو اپنے سر كومنڈائے اور نہ ہي بال چھوٹے كروائے اور نہ ہي احرام كھولے گا بلكہ وہ عيد كے دن جمرہ عقبہ كورمي كرنے تك اپنے اسي احرام ميں رہے گا , اور اگر وہ حج كي سعي كو طواف حج يعني طواف افاضہ كے بعد تك مؤخر كرنا چاہے تو اس ميں بھي كوئي حرج نہيں وہ ايسا كرسكتا ہے .
حج قران :
حج قران يہ ہے كہ : حج اور عمرہ دونوں كا احرام باندھا جائے يا پھر پہلے عمرہ كا احرام باندھے اور پھر بعد ميں عمرہ كا طواف كرنے سے قبل اس پر حج كو بھي داخل كردے ( وہ اس طرح كہ وہ اپنے طواف اور سعي كوحج اور عمرہ كي سعي كرنے كي نيت كرے ) .
حج قران اور حج افراد كرنے والے شخص كے اعمال حج ايك جيسے ہي ہيں صرف فرق يہ ہے كہ حج قران كرنے والے پر قرباني ہے اور حج افراد كرنے والے پر قرباني نہيں .
ان تينوں اقسام ميں افضل قسم حج تمتع ہے اور يہي وہ قسم ہے نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے صحابہ كرام كو جس كا حكم ديا اور اس پر انہيں ابھارا ، حتى كہ اگر كوئي انسان حج قران يا حج افراد كا احرام باندھے تواس كے ليے بہتر يہي ہے كہ وہ اپنے احرام كوعمرہ كا احرام بنا لے اور عمرہ كرنے كے بعداحرام كھول كرحلال ہو جائے تا كہ وہ حج تمتع كرسكے اگرچہ وہ طواف قدوم اور سعي كے بعد ہي كيوں نہ ہو .
اس ليے كہ نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حجۃ الوداع كے سال جب طواف اور سعي كرلي اور آپ كےساتھ صحابہ كرام بھي تھے تورسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جس كے ساتھ بھي قرباني نہ تھي اسےحكم ديا كہ وہ اپنے احرام كوعمرہ كےاحرام ميں بدل لے اور بال چھوٹے كروا كر حلال ہو جائے اور فرمايا :
اگر ميں اپنے ساتھ قرباني نہ لاتا تو ميں بھي وہي كام كرتا جس كا تمہيں حكم دے رہا ہوں .
احرام :
يہاں احرام كے وہ مسنون كام غسل ، اور خوشبو اور نماز وغيرہ پر كرے جن كا ذكر اس سوال نمبركے جواب ميں گزر چكا ہے جس كي طرف ابھي اوپر اشارہ كيا گيا ہے اور پھر نماز يا سواري پر سوار ہونے كے بعد احرام باندھے (يعني احرام كي نيت كرے )
پھر اگر اس نےحج تمتع كرنا ہو تو وہ اس طرح كہے : لبيك اللھم بعمرۃ .
اور اگر حج قران كرنا ہو تو يہ كہے : لبيك اللھم بحجۃ وعمرۃ .
اوراگر حج مفرد كرنا ہو تو اس طرح كہے : لبيك اللھم حجا .
اور پھر يہ كہے : اللھم ھذہ حجۃ لارياء فيھا ولا سمعۃ . (اے اللہ اس حجں نہ تو رياء كاري ہے اورنہ ہي دكھلاوا )
پھر اس كے بعد تلبيہ كہے جس طرح رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كہا تھا اس كے الفاظ يہ ہيں : ( لبيك اللهم لبيك ، لبيك لا شريك لك لبيك ، إن الحمد والنعمة لك والملك لا شريك لك ) ميں حاضر ہوں اے اللہ ميں حاضر ہوں ، ميں حاضر ہوں تيرا كوئي شريك نہيں ميں حاضر ہوں ، يقينا تعريفات اور نعمتيں تيري ہي ہيں اور تيري ہي بادشاہي ہے تيرا كوئي شريك نہيں .
اور نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے تلبيہ ميں يہ الفاظ بھي شامل تھے لبيك إله الحق اے الہ حق ميں حاضر ہوں , اور ابن عمر رضي اللہ تعالى عنھما اپنے تلبيہ ميں يہ الفاظ زيادہ كيا كرتے تھے :( لبيك وسعديك والخير بيديك والرغباء إليك والعمل ) ميں حاضر ہوں اور بھلائي تيرے ہاتھ ميں ہے اورتيري رغبت ہے اورعمل بھي تيرے ليے .
آدمي كوتلبيہ كہتے ہوئے آواز بلند كرني چاہيے ليكن عورت آواز بلند نہ كرے بلكہ صرف اتني آواز سے تلبيہ كہے جو اس كے ساتھ والا ہي سن سكے ليكن اگر اس كے قريب بھي كوئي غير محرم ہو تو تلبيہ خاموشي سے كہے گي .
- اور اگر احرام باندھنے والے كو كسي روكنے والي چيز كا خوف ہو جواسے حج مكمل كرنے سے روك دے ( مثلا بيماري يا دشمن يا روكا جانا يا اس كے علاوہ كوئي اور چيز ) تو اس كےليے احرام باندھتے وقت شرط لگانا ضروري ہے لھذا وہ مندرجہ ذيل دعا پڑھے :
(إن حبسني حابس فمحلي حيث حبستني) اگرمجھےكسي روكنےوالے روك ليا توميرے حلال ہونےكي جگہ وہي ہوگي جہاں مجھے روك دے .
يعني اگرمجھے بيماري يا تاخير وغيرہ نے حج مكمل كرنے سے روك ديا توميں اپنےاحرام سے حلال ہو جاؤں گا - اس ليےكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ضباعۃ بنت زبير رضي اللہ تعالى عنھما جب احرام كے وقت وہ بيماري كي حالت ميں تھيں تو انہيں حكم ديا تھا كہ وہ احرام كومشروط كرليں آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں فرمايا : تم جواستثناء كروگي وہ تيرے رب پرہوگا . صحيح بخاري حديث نمبر( 5089 ) صحيح مسلم ( 1207 )
توجب كوئي شخص احرام كومشروط كرلے اور حج كرنےميں اس كےليے كوئي مانع پيدا ہوجائے تووہ اپنے احرام سے حلال ہو جائے اور اس پر كچھ بھي لازم نہيں آئےگا .
اور جس شخص كو كسي روكنےوالي چيزكا خدشہ نہ ہو اس كے لائق نہيں كہ وہ احرام كومشروط كرے اس ليے كہ نہ تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مشروط كيا اور نہ ہي ہر ايك كومشروط كرنے كا حكم ديا بلكہ صرف بيماري كي وجہ سے ضباعۃ بنت زبير رضي اللہ تعالى عنھما كو ہي حكم ديا .
اور محرم شخص كے ليے ضروري ہےكہ وہ تلبيہ كثرت سے كہے خاص كرحالات اور اوقات كي تبديلي ميں مثلا جب كسي بلند جگہ پر چڑھے يا ڈھلوان سے نيچے اترے يا رات اور دن شروع ہو اور تلبيہ كہنے كے بعد اللہ تعالى كي رضا وخوشنودي اورجنت طلب كرے اور اللہ تعالى كي رحمت كےساتھ آگ سے پناہ طلب كرتا رہے .
اورعمرہ ميں احرام باندھنے سےليكر طواف كي ابتداء تك تلبيہ كہنا مشروع ہے .
اورحج ميں احرام باندھنے سےليكر عيد كےدن جمرہ عقبہ كوكنكرياں مارنےتك تلبيہ كہنا مشروع ہے .
مكہ مكرمہ ميں داخل ہونے كے ليے غسل كرنا :
اگرحاجي كےليے ميسر ہوسكے تو مكہ مكرمہ كے قريب پہنچ كر مكہ داخل ہونے كے ليےغسل كرے كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مكہ مكرمہ داخل ہوتےوقت غسل فرمايا تھا . صحيح مسلم ( 1259 )
پھرجب مسجدحرام ميں داخل ہونے لگے توداياں پاؤں اندر ركھے اور يہ دعا پڑھے : ( بسم الله والصلاة والسلام على رسول الله اللهم اغفر لي ذنوبي وافتح لي أبواب رحمتك أعوذ بالله العظيم وبوجهه الكريم وبسلطانه القديم من الشيطان الرجيم ) اللہ تعالى كےنام سے اور اللہ تعالى كےرسول صلى اللہ عليہ وسلم پردرود وسلام ہوں اے اللہ ميرے گناہ بخش دے اورميرے ليے اپني رحمت كے دروازے كھول دے , ميں عظيم اللہ اور اس كے كريم چہرے اور اس كي قديم بادشاہي كےساتھ شيطان مردود سے پناہ مانگتا ہوں .
پھر طواف كرنے كےليے حجراسود كےپاس جائے اور وہاں سے طواف شروع كرے ... طواف كرنے كا طريقہ سوال نمبر ( 31819 ) كے جواب ميں بيان ہو چكا ہے .
پھرطواف اور دوركعت ادا كرنےكے بعد سعي كے ليے صفا مروہ پر جائے اور صفامروہ ميں سعي كرنے كا طريقہ سوال نمبر ( 31819 ) كے جواب ميں بيان كيا جاچكا ہے .
حج تمتع كرنےوالا عمرہ كي سعي كرے گا ليكن حج مفرد اور حج قران كرنے والا شخص حج كي سعي كرينگے اور يہ دونوں اگرچاہيں تو طواف افاضہ كےبعد تك بھي اس سعي كومؤخر كرسكتےہيں .
سرمنڈانا يا بال چھوٹے كروانا :
حج تمتع كرنےوالاشخص جب سعي كےسات چكرمكمل كرچكے اگر تووہ مرد ہے وہ اپنا سرمنڈائے يابال چھوٹے كروائے يہ ضروري ہے كہ سركے مكمل بال منڈوائے جائيں اور اسي طرح مكمل سر كے بال كٹوانا ضروري ہيں ، ليكن بال كٹوانے سے سرمنڈانےكي فضيلت زيادہ ہے اس ليے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سرمنڈانے والوں كےليے تين بار اور بال چھوٹے كروانے والوں كے ليے ايك بار دعا فرمائي ہے . صحيح مسلم ( 1303 )
ليكن اگرحج بالكل قريب ہو اور بال اگنے كے ليے وقت نہ ہو تو اس حالت ميں بال چھوٹے كروانا افضل ہيں تاكہ بال باقي رہيں اور انہيں حج ميں منڈوا سكے اس كي دليل يہ ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حجۃ الوداع كےموقع پر صحابہ كرام كوعمرہ ميں بال چھوٹے كروانے كاحكم ديا تھا اس ليے كہ وہ چار ذوالحجۃ كے دن صبح كے وقت مكہ پہنچے تھے , اور عورت انگلي كے پورے كےبرابر اپنے سركےبال كاٹےگي .
ان اعمال كے كرنے سے حج تمتع كرنےوالے شخص كا عمرہ مكمل ہوجائے گا اور وہ اس كےبعد مكمل طور پرحلال ہے ، وہ وہي اعمال كرے گا جوباقي حلال اشخاص كرتےہيں لباس پہنے اور خوشبو استعمال كرے اور بيوي كےپاس بھي جاسكتا ہے وغيرہ .
ليكن حج قران اورحج مفرد كرنے والے نہ تو سرمنڈائيں اور نہ ہي سركےبال چھوٹے كروائيں گے اور نہ ہي وہ اپنے احرام سے حلال ہونگے بلكہ وہ عيد كےدن تك رمي جمرۃ تك احرام ميں ہي باقي رہيں گے اور جمرۃ عقبہ كورمي كرنے كے بعد سرمنڈا يا بال چھوٹے كروا كراحرام كھوليں گے .
پھر جب يوم الترويہ جوكہ ذوالحجہ كي آٹھ تاريخ كے دن حج تمتع كرنے والا چاشت كے وقت مكہ ميں اپني رہائش سےہي احرام باندھےگا اور احرام كے وقت اس كےليے اس طرح خوشبو لگانا اور غسل كرنا اورنماز ادا كرنا مستحب ہے جس طرح عمرہ كے طواف ميں كيا تھا تو اس طرح وہ حج كے احرام كي نيت كرے اور تلبيہ كہتےہوئے كہے ( لبيك اللهم حجاً ) اے اللہ ميں حج كے ليے حاضر ہوں .
اوراگر اسے كسي روكنے والي چيز كا خوف ہوكہ وہ اسے حج مكمل كرنے سے روك دے گي تووہ يہ كلمات ادا كرے : ( وإن حبسني حابس فمحلي حيث حبستني ) اور اگر مجھے كسي روكنے والي چيز نے روك ديا تو جہاں تومجھے روكے وہي ميرے حلال ہونےكي جگہ ہے .
اور اگركسي روكنے والي چيز كا خدشہ نہ ہو تو پھر وہ احرام كو مشروط نہ كرے , اس كےليے عيد كےدن جمرۃ عقبہ كورمي كرنے تك بلند آواز سےتلبيہ كہنا مستحب ہے .
مني كي طرف روانگي :
پھر مني روانہ ہو اور ظھر عصر مغرب عشاء اور فجر كي نماز قصر كركے ادا كرے ليكن جمع نہيں كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم منى ميں نماز قصر توكيا كرتے تھے ليكن آپ نے وہاں نماز جمع نہيں كي .
قصر يہ ہے كہ چار ركعتي نماز كودو ركعت ادا كرے ، مني عرفات اور مزدلفہ ميں اھل مكہ اور باقي سب لوگ بھي نماز قصر كر كےہي ادا كرينگے اس ليے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نےحجۃ الوداع كے موقع پر لوگوں كونماز پڑھائي اس موقع پر آپ كے ساتھ اھل مكہ بھي تھے ليكن آپ نے انہيں نماز پوري پڑھنے كا حكم نہيں ديا لھذا اگر ان پر پوري نماز ادا كرنا واجب ہوتي تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم انہيں نماز پوري كرنے كاحكم ديتےجس طرح انہيں فتح مكہ كےموقع پر حكم ديا تھا .
ليكن جبكہ مكہ كي آبادي بڑھ چكي ہے اور مني بھي اسي ميں شامل ہوكراس كےمحلوں ميں سے ايك محلہ بن چكا ہے لھذا اھل مكہ وہاں قصر نہيں كرينگے .
ميدان عرفات كي طرف روانگي :
يوم عرفہ كوجب سورج طلوع ہو چكے تو حاجي مني سے عرفات كي طرف روانہ ہو اور اگر ميسر ہو سكے تو ظھر تك وادي نمرہ ميں ہي پڑاؤ كرے ( ميدان عرفات كےساتھ ہي جگہ كونمرہ كہا جاتا ہے ) اور اگر ميسر نہ ہو تو كوئي حرج نہيں اس ليے كہ وادي نمرہ ميں پڑاؤ كرنا سنت ہے نہ كہ واجب .
اورجب سورج ڈھل جائے ( يعني نماز ظھر كا وقت شروع ہوجائے ) تو دو دو ركعت كركے ظھر اور عصر كي نماز جمع تقديم كركے ادا كرے جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كيا تھا تا كہ وقوف اور دعاء كےليے لمبا وقت ميسر ہو .
پھرنماز ادا كرنےكے بعد اللہ تعالى كے ذكر اوردعا ميں مشغول رہے اور اللہ تعالى كےسامنےعاجزي وانكساري بجالائے اور گڑگڑائے اورھاتھ بلند كركے قبلہ رخ ہو كردعا كرے اگرچہ جبل عرفات ( جبل رحمت ) اس كے پچھلي جانب ہي كيوں نہ ہو اس ليے كہ قبلہ رخ ہونا سنت ہے نہ كہ پہاڑ كي جانب رخ كرنا ، نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے پہاڑ كے قريب وقوف كيا اور فرمايا :
ميں نے يہاں وقوف كيا ہے اور ميدان عرفات سارا ہي وقوف كرنے كي جگہ ہے .
اس عظيم وقوف ميں نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم كي اكثردعا يہ ہو ا كرتي تھي :
( لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير ) اللہ كے علاوہ كوئي اورعبادت كے لائق نہيں وہ اكيلا ہے اس كا كوئي شريك نہيں اسي كا بادشاہي ہے اور اسي كےليے حمد وتعريف ہے وہ ہر چيز پر قادر ہے .
اگر وہ دعا كرتے ہوئے اكتا جائے اور اپنے دوست واحباب سے نافع بات چيت كركےيا پھر جومفيد قسم كي كتاب ميسر ہو پڑھ كردل كوبہلائے تويہ بہتر ہے خاص كروہ كتاب جواللہ تعالى كےكرم وفضل اور اس كے عطاء وہبہ كے بارہ ميں ہو تاكہ اس دن اس كي اميد اور زيادہ قوي ہوسكے، اس كے بعد اسے پھر دوبارہ اللہ تعالى كي جانب عاجزي وانكساري اور دعاء كي جانب لوٹ آنا چاہيے اور دن كے آخرتك دعاء كرنے كو موقع غنيمت جاننا چاہيے اس ليے كہ سب سےبہترين دعاء يوم عرفہ كي دعا ہے .
مزدلفہ كي جانب روانگي :
جب سورج غروب ہوجائے تو حاجي مزدلفہ كي جانب روانہ ہو ... اور جب مزدلفہ پہنچے تووہاں مغرب اور عشاء كي نمازيں ايك اذان اور دو اقامتوں كے ساتھ باجماعت ادا كر ے .
ليكن اگر اسے يہ خدشہ ہو كہ وہ آدھي رات كے بعد مزدلفہ پہنچے گا تواسے راستے ميں ہي نماز ادا كرليني چاہيے اور آدھي رات كے بعدتك نماز ميں تاخير كرنا جائز نہيں ہے .
اور مزدلفہ ميں ہي رات بسر كرے اورجب فجرطلوع ہو تو اول وقت ميں ہي اذان اور اقامت كے ساتھ باجماعت نماز ادا كرے اور پھر مشعر الحرام كي جانب جائے ( مشعرحرام كي جگہ اس وقت مزدلفہ ميں مسجد موجود ہے ) وہاں اللہ تعالى كي بڑائي بيان كرتے ہوئے تكبريں كہے اور اللہ تعالي كي توحيد بيان كرتے ہوئے اچھي طرح روشني ہونے تك دعا مانگتا رہے ( يعني سورج طلوع ہونے سے قبل والي روشني كو اسفار كہا جاتا ہے ) اگر مشعر الحرام جانا ميسر نہ ہو سكے تو حاجي كواپني جگہ پر ہي دعا كرني چاہيے اس ليے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے : ميں نے يہاں وقوف كيا ہے اور جمع ( يعني مزدلفہ ) سارے كا سارا ہي وقوف كرنے كي جگہ ہے .
اورحاجي كو چاہيے كہ وہ ذكرواذكار اوردعاء كي حالت ميں قبلہ رخ ہو اور اپنے ہاتھ اٹھا كردعا كرے .
منى كي جانب روانگي :
جب اچھي طرح سفيدي ہو جائے تو سورج طلوع ہونےسے قبل ہي مني كي جانب روانہ ہو اور وادي محسر ( يہ مزدلفہ اورمنى كے مابين ہے ) ميں تيزي كے ساتھ چلے .
جب منى پہنچے تو جمرہ عقبہ جوكہ مكہ والي جانب ہے ( يہ جمرہ جمرات ميں سے مكہ كےسب سے زيادہ قريب ہے ) كولوبيا كے حجم كے برابر مسلسل سات كنكرياں مارے اور ہر كنكري كے ساتھ تكبير كہے ( جمرہ عقبہ كورمي كرتے وقت سنت يہ ہے كہ جمرہ كوسامنےاور مكہ مكرمہ كو اپنے بائيں جانب اور منى كو دائيں جانب ركھے ) جب رمي سے فارغ ہو تو قرباني كركے سرمنڈائے يا بال چھوٹے كروا لے اگر مرد ہو اور عورت انگلي كے پورے كربرابر اپنے سركےبال كاٹے .
( تواس طرح محرم شخص كا پہلا تحلل ہوگا اس كےليے بيوي سے ہم بستري كے علاوہ باقي سب كچھ حلال ہوگا ) پھر وہ مكہ مكرمہ جائے اور حج كي سعي اور طواف كرے ( پھر تحلل ثاني ہوگا اب اس كے ليے احرام كي بنا پر حرام ہونے والي ہر چيز حلال ہو جائےگي ) .
رمي كرنےاور سر منڈانے كے بعد جب حاجي طواف كے ليے مكہ مكرمہ جانا چاہے تو خوشبو لگانا سنت ہے اس كي دليل عائشہ رضي اللہ تعالى عنھا كا قول ہے وہ بيان كرتي ہيں كہ ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كواحرام كے ليے احرام باندھنے سے قبل اورحلال ہونے كےليے بيت اللہ كا طواف كرنے سے قبل خوشبو لگايا كرتي تھي . صحيح بخاري ( 1539 ) صحيح مسلم ( 1189 ) .
پھر طواف اور سعي كرنے كے بعد منى واپس پلٹ آئے اور گيارہ اوربارہ تاريخ كي دونوں راتيں مني ميں ہي بسر كرے اور دونوں دن زوال كے بعد تينوں جمرات كو كنكرياں مارے ، افضل يہ ہے كہ رمي كرنے كے ليے پيدل جائے اور اگر سواري پر بھي جائے تو اس ميں كوئي حرج نہيں .
جمرۃ اولي جوكہ جمرات ميں سے مكہ سےسب سے زيادہ دور اور مسجد خيف والي جانب ہے اس جمرہ كومسلسل ايك كےبعد دوسري سات كنكرياں مارے اور ہر كنكري كے ساتھ اللہ اكبر كہے پھر كچھ آگے بڑھ كرلمبي دعا كرے اور جودعا پسند ہو مانگے اور اگر زيادہ دير كھڑا ہونا اور لمبي دعا مانگنے ميں اس كے ليے مشقت ہو تو اسے وہي دعا كرليني چاہيے جو اس كےليے آسان ہو اگرچہ تھوڑي دير ہي دعا كريں تا كہ سنت پر عمل ہو سكے .
پھرجمرہ وسطى ( درمان والے ) ك مسلسل سات كنكرياں مارے اور ہر كنكري كے ساتہ تكبير بھي كہے پھر بائيں جانب ہو اور قبلہ رخ كھڑے ہوكر ہاتھ اٹھائے اگر ميسر ہو تولمبي دعا كرے وگرنہ جتني دير ميسر ہو كھڑے ہو كردعا كرے دعا كے ليے كھڑے نہ ہونا صحيح نہيں كيونكہ وہاں دعا كرنا سنت ہے اور بہت سے لوگ يا تو جہالت كي بنا پر يا پھر سستي وكاہلي كي وجہ سے دعا كرنا چھوڑ ديتے ہيں ، اور جب كبھي سنت كوضائع كرديا گيا ہو تو اس پر عمل كرنا اور اسے لوگوں كے مابين نشر كرنا زيادہ يقيني ہو جاتا ہے تاكہ سنت ترك ہي نہ كردي جائے اور مردہ ہي نہ ہو جائے .
پھر اس كے بعد جمرہ عقبہ ( بڑے جمرہ ) مسلسل سات كنكرياں مارے اور ہر كنكري كے ساتھ تكبير بھي كہے اور وہاں سے ہٹ جائے اور اس كے بعد دعا نہ ما نگے .
جب بارہ تاريخ كي كنكرياں مار چكے تو اگر حاجي چاہے توتعجيل كرتے ہوئے منى سے نكل سكتا ہے اور اگر چاہے تو اس ميں تاخير كرلے اور تيرہ تاريخ كي رات بھي منىميں ہي بسر كرے اور حسب سابق زوال كے بعد تيرہ تاريخ كو بھي تينوں جمرات كو كنكرياں مارے اور تاخير يعني تيرہ تاريخ تك منى ميں ٹھرنا اور كنكرياں مارنا افضل ہے ليكن ضروري اور واجب نہيں .
ليكن اگر بارہ تاريخ كا سورج غروب ہو گيا اور وہ منى سے نہيں نكلا تو اس صورت ميں اس پر تاخير لازم ہوگي حتي كہ دوسرے دن ( تيرہ تاريخ ) زوال كے بعد تينوں جمرات كوكنكرياں مار ے .
ليكن اگر بارہ تاريخ كا سورج غروب ہوا تو وہ بغير اپنے اختيار كے منى ميں ہي تھا وہ اس طرح كہ وہ وہاں سے نكل پڑا ليكن گاڑيوں كےرش وغيرہ كي بنا پردير ہوگئي تو اس كےليے تاخيركرني ( تيرہ كي رات وہاں ٹھرنا ) لازمي نہيں اس ليے كہ غروب شمس تك تاخير اس نے اپنے اختيار سے نہيں كي .
اور جب مكہ مكرمہ سے حاجي اپنے ملك روانہ ہونا چاہے تو وہاں سے طواف وداع كے بغير نہ نكلے كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے :
كوئي ايك بھي (مكہ مكرمہ سے ) نہ نكلے حتي كہ اس كا آخري كام بيت اللہ كا طواف ہو . صحيح مسلم حديث نمبر ( 1327 )
اور ايك روايت ميں ہے كہ : رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے لوگوں كوحكم ديا كہ ان كا آخري كام بيت اللہ كا طواف ہونا چاہيے ليكن آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے حائضہ عورت سے اس كي تخفيف كردي . صحيح بخاري حديث نمبر ( 1755 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1328 )
لھذا حائضہ اور نفاس والى عورتوں طواف وداع نہيں اور نہ ہي ان كے لائق ہے كہ وہ وداع كےليےمسجد حرام كے دروازے كےپاس كھڑي ہوں كيونكہ ايسا كرنا رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت نہيں .
جب حاجي مكہ مكرمہ سے سفر كرنے كا ارادہ كرے تواسے سب سے آخري كام بيت اللہ كا طواف كرنا چاہيے اور طواف وداع كےبعد اپنے مرافقين اور سامان وغيرہ اٹھوانے كا انتظار كرے يا راستے سے كوئي خريداري كرلے تواس ميں كوئي حرج والي بات نہيں اور اسے طواف دوبارہ نہيں كرنا پڑے گا ليكن اگر اس نے سفر كا ارادہ ملتوي كرديا مثلا اس كي نيت تھي كہ وہ صبح كے وقت سفر كرے گا تو ا س نے طواف وداع كرليا ليكن پھر اس نے دن كے آخرتك سفر كو مؤخركرديا تواسے طواف وداع دوبارہ كرنا ہوگا تاكہ اس كا آخري كام بيت اللہ كا طواف ہو .
فائدہ :
حج كا عمرہ احرام باندھنے والے شخص كے ليے مندرجہ ذيل اشياء ضروري اور واجب ہيں :
1-اللہ تعالى نے جوكچھ اس پر واجب كيا ہے اس كا التزام كرے مثلا : وقت ميں نمازوں كي باجماعت پابندي .
2-اللہ سبحانہ وتعالي نے جن اشياء بيوي سے ميل ملاپ ، لڑائي جھگڑا اورفسق وفسجور اور نافرماني سے منع فرمايا ہے اس سے اجتناب كرے كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے :
{حج كےمہينے مقرر ہيں اس ليے جوشخص بھي ان ميں حج لازم كرلے وہ دوران حج اپني بيوي سے ميل ملاپ كرنے ، گناہ كرنے اور لڑائي جھگڑا كرنے سے بچتا رہے }البقرۃ ( 197 )
3- مشاعر مقدسہ وغيرہ ميں مسلمانوں كوزبان اور فعل سے اذيت وتكليف دينے سے اجتناب كرے .
4- احرام كي سب ممنوع كردہ اشياء سے اجتناب كرے .
( ا ) احرام كے بعد بال يا ناخن وغيرہ نہ كٹوائے ليكن كانٹا وغير نكالنے ميں كوئي حرج نہيں اگرچہ كانٹا نكالتے وقت خون بھي نكل آئے تو پھر بھي حرج والي بات نہيں .
( ب ) احرام كےبعد اپنے بدن اور كپڑے يا كھانے يا پينے وغيرہ ميں خوشبو نہ لگائے اور نہ ہي خوشبووالا صابن ہي استعمال كرے ، ليكن اگر احرام سے قبل سے خوشبو لگائي ہو اور احرام كے بعد بھي اس كے آثار باقي ہيں تو اس ميں كوئي نقصان نہيں .
( ج ) شكار نہ كرے .
( د ) بيوي سےہم بستري ومباشرت نہ كرے .
( ھ ) بيوي سے شہوت كےساتھ ميل ملاپ بھي نہ كرے اور نہ ہي بوس وكناروغيرہ كرے .
( و ) نہ تو اپنا نكاح كرے اور نہ ہي كسي دوسرے كا اور نہ ہي اپني اور نہ كسي دوسري كي منگني كرے .
( ز ) دستانے نہ پہنے ليكن ہاتھوں پر كپڑا وغيرہ لپيٹنےميں كوئي حرج نہيں .
مرد و عورت دونوں كے ليے يہ سات اشياء ممنوعات احرام ميں سے ہيں .
مندرجہ ذيل اشياء مرد كے ساتھ خاص ہيں :
- كسي ايسي چيز كےساتھ سرنہ ڈھانپے جوسر كےساتھ لگي ہوئي ہو ليكن چھتري سے سايہ كرنا اور گاڑي كي چھت اور خيمہ اورسرپر سامان اٹھانے ميں كوئي حرج نہيں .
- نہ تومحرم شخص قميص پہنے اور نہ ہي پگڑي اور برانڈي اور پائجامہ اور نہ موزے ليكن جب اسے تہ بند ( نيچے باندھنے والي چادر) نہ ملے تو پائجامہ پہن سكتا ہے اور اور جوتا نہ ملنے كي صورت ميں موزے پہننے جائز ہيں .
- اور نہ ہي وہ اشياء پہنے جومندرجہ بالا اشياء كے معني ميں ہوں لھذا نہ تو جبہ اور نہ ہي برانڈي اور بنيان وغيرہ پہنے گا .
- مرد كے ليے جوتے اور انگوٹھي پہنني عينك اور آلہ سماعت لگانا اور ہاتھ ميں گھڑي پہننا يا گلے ميں لٹكانا اورپيسےوغيرہ ركھنے كےليے پيٹي باندھنا جائز ہے .
- بغير خوشبو والي اشياء سے (ہاتھ وغيرہ )دھو سكتا ہے اور چہرہ بدن اور سر دھو سكتا ہے اور اگر بغير قصد كے خود ہي بال گرجائے تو اس پر كچھ لازم نہيں آئے گا .
اور عورت نہ تو نقاب كرےگي نقاب اسے كہتے ہيں جس سے چہرہ ڈھانپا جائے اور آنكھوں كے ليے سوراخ ہوں ، اور اسي طرح عورت برقع بھي نہيں پہنے گي .
عورت كےليے سنت يہ ہے كہ احرام كي حالت ميں اپنا چہرہ ننگا ركھے ليكن اگر اسے غير محرم مرد ديكھ رہے ہوں تو اس كے ليے احرام كي حالت وغيرہ ميں بھي چہرہ ڈھانپنا واجب ہے ...
ديكھيں كتاب مناسك الحج للالباني اور كتاب صفۃ الحج والعمرۃ اور كتاب المنھج لمريد العمرۃ والحج لابن عثيمين رحمھم اللہ الجميع .
واللہ اعلم .

الاسلام سوال وجواب
blogger

جمعہ

عشرہ ذوالحجہ كي فضيلت كے متعلق سوال

كيا ماہ ذوالحجہ كے پہلے دس دنوں كو دوسرے سب ايام پر فضيلت حاصل ہے ؟
اور ان دس دنوں ميں كونسے ايسے اعمال صالحہ ہيں جو كثرت سے كرنا مستحب ہيں ؟

الحمد للہ:
اطافت وفرمانبردارى كے موسموں ميں سے ماہ ذوالحجہ كے پہلے دس يوم بھي ہيں جنہيں اللہ تعالى نے باقى سب ايام پر فضيلت دى ہے:
ابن عباس رضي اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ان دس دنوں میں کیے گئے اعمال صالحہ اللہ تعالی کوسب سے زيادہ محبوب ہیں ، صحابہ نے عرض کی اللہ تعالی کے راستے میں جھاد بھی نہيں !! تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اورجھاد فی سبیل اللہ بھی نہيں ، لیکن وہ شخص جواپنا مال اورجان لے کر نکلے اورکچھ بھی واپس نہ لائے " صحیح بخاری ( 2 / 457 )
اور ايك دوسرى حديث ميں ہے ابن عباس رضي اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" عشرہ ذی الحجہ میں کیے گئے عمل سے زیادہ پاکیزہ اورزيادہ اجروالا عمل کوئي نہيں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گيا کہ نہ ہی اللہ تعالی کے راستے میں جھاد کرنا ؟ تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اورنہ ہی اللہ تعالی کے راستے میں جھاد کرنا " سنن دارمی ( 1 / 357 ) اس کی سند حسن ہے دیکھیں الارواء الغلیل ( 3 / 398 ) ۔
مندرجہ بالا اوراس کے علاوہ دوسری نصوص اس پردلالت کرتی ہیں کہ ذوالحجہ کے پہلے دس دن باقی سال کے سب ایام سے بہتر اورافضل ہيں اوراس میں کسی بھی قسم کا کوئي استثناء نہيں حتی کہ رمضان المبارک کا آخری عشرہ بھی نہيں ، لیکن رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی دس راتیں ان ایام سے بہتر اورافضل ہیں کیونکہ ان میں لیلۃ القدر شامل ہے ، اورلیلۃ القدر ایک ہزار راتوں سے افضل ہے ، تواس طرح سب دلائل میں جمع ہوتا ہے ۔دیکھیں : تفسیر ابن کثیر ( 5 / 412 ) ۔
لھذا مسلمان شخص كو چاہئے كہ وہ ان دس دنوں كي ابتدا اللہ تعالى كے سامنے سچى اور پكى توبہ كے ساتھ كرے اور پھر عمومى طور پر كثرت سے اعمال صالحہ كرے اور پھر خاص كر مندرجہ ذيل اعمال كا خيال كرتے ہوئے انہيں انجام دے:
1 - روزے ۔
مسلمان شخص کےلیے نو ذوالحجہ کا روزہ رکھنا سنت ہے کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دس ایام میں اعمال صالحہ کرنے پرابھارا ہے اور روزہ رکھنا اعمال صالحہ میں سے سب سے افضل اوراعلی کام ہے ، اوراللہ تعالی نے روزہ اپنے لیے چنا ہے جیسا کہ حدیث قدسی میں اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
( ابن آدم کے سارے کے سارے اعمال اس کے اپنے لیے ہیں لیکن روزہ نہيں کیونکہ وہ میرے لیے ہے اورمیں ہی اس کا اجروثواب دونگا ) ، صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1805 ) ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی نو ذوالحجہ کا روزہ رکھا کرتے تھے ، ھنیدہ بن خالد اپنی بیوی سے اوروہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی زوجہ محترمہ سے بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ نے بیان کیا : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نو ذوالحجہ اوریوم عاشوراء اورہر ماہ تین روزے رکھا کرتے تھے ، مہینہ کے پہلے سوموار اوردو جمعراتوں کے ۔
سنن نسائي ( 4 / 205 ) سنن ابوداود ، علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح ابوداود ( 2 / 462 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
2 - تکبیریں، الحمد اللہ اور سبحان اللہ كثرت سے کہنا :
ان دس ایام میں مساجد ، راستوں اورگھروں اورہر جگہ جہاں اللہ تعالی کا ذکر کرنا جائز ہے وہیں اونچی آواز سے تکبیریں اورلاالہ الااللہ ، اورالحمدللہ کہنا چاہیے تا کہ اللہ تعالی کی عبادت کا اظہار اوراللہ تعالی کی تعظیم کا اعلان ہو ۔ مرد تواونچي آواز سے کہيں گے لیکن عورتیں پست آواز میں ہی کہيں ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
{ اپنے فائدے حاصل کرنے کوآجائيں ، اوران مقرردنوں میں ان چوپایوں پراللہ تعالی کانام یاد کریں جوپالتوہیں } الحج ( 28 ) ۔
جمہورعلماء کرام کا کہنا ہے کہ معلوم دنوں سے مراد ذوالحجہ کے دس دن ہیں کیونکہ ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ ایام معلومات سے مراد دس دن ہیں ۔
عبد اللہ بن عمر رضي اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اللہ تعالى كے ہاں ان دس دنوں سے عظيم كوئى دن نہيں اور ان دس ايام ميں كئے جانے والے اعمال سے زيادہ كوئي عمل محبوب نہيں، لھذا لاالہ الا اللہ، اور سبحان اللہ ، اور تكبيريں كثرت سے پڑھا كرو" اسے امام احمد نے روايت كيا ہے اور اس كي سند كو احمد شاكر رحمہ اللہ نے صحيح قرار ديا ہے: ديكھيں: مسند احمد ( 7/ 224 ) .
اورتکبیر کے الفاظ یہ ہیں :
الله أكبر ، الله أكبر لا إله إلا الله ، والله أكبر ولله الحمد
اللہ بہت بڑاہے ، اللہ بہت بڑا ہے ، اللہ تعالی کےعلاوہ کوئي معبود برحق نہيں ، اوراللہ بہت بڑا ہے ، اوراللہ تعالی ہی کی تعریفات ہیں ۔
اس کےعلاوہ بھی تکبیریں ہیں ۔
یہاں ایک بات کہنا چاہیں گے کہ موجود دورمیں تکبریں کہنے کی سنت کوترک کیا جاچکا ہے اورخاص کران دس دنوں کی ابتداء میں توسننے میں نہیں آتی کسی نادر شخص سے سننے میں آئيں گیں ، اس لیے ضروری ہے کہ تکبیروں کواونچی آواز میں کہا جائے تاکہ سنت زندہ ہوسکے اورغافل لوگوں کوبھی اس سے یاد دہانی ہو۔
ابن عمر اور ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہما کے بارہ میں ثابت ہے کہ وہ دونوں ان دس ایام میں بازاروں میں نکل کر اونچی آواز کے ساتھ تکبیریں کہا کرتے تھے اورلوگ بھی ان کی تکبیروں کی وجہ سے تکبیریں کہا کرتے تھے ، اس کا مقصد اورمراد یہ ہے کہ لوگوں کوتکبریں کہنا یاد آئيں اور ہرایک اپنی جگہ پراکیلے ہی تکبریں کہنا شروع کردے ، اس سے یہ مراد نہيں کہ سب لوگ اکٹھے ہوکر بیک آواز تکبیریں کہيں کیونکہ ایسا کرنا مشروع نہيں ہے
اورجس سنت کوچھوڑا جاچکا ہویا پھر وہ تقریبا چھوڑی جارہی ہو تواس پرعمل کرنا بہت ہی عظیم اجروثواب پایا جاتا ہے کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھی اس پردلالت کرتا ہے :
( جس نے بھی میری مرد سنت کوزندہ کیا اسے اس پر عمل کرنے والے کے برابر ثواب دیا جائے گا اوران دونوں کے اجروثواب میں کچھ کمی نہيں ہوگي ) اسے امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی نے روایت کیا ہے : دیکھیں سنن ترمذي ( 7 / 443 ) یہ حدیث اپنے شواھد کے ساتھ حسن درجہ تک پہنچتی ہے ۔
3 - حج وعمرہ کی ادائيگي :
ان دس دنوں میں جوسب سے افضل اوراعلی کام ہے وہ بیت اللہ کاحج وعمرہ کرنا ہے ، لھذا جسے بھی اللہ تعالی اسے اپنے گھرکا حج کرنے کی توفیق عطا فرمائے اوراس نے مطلوبہ طریقہ سے حج کے اعمال ادا کیے توان شاء اللہ اسے بھی اس کا حصہ ملے گا جونبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس فرمان میں بیان کیا ہے :
( حج مبرور کا جنت کے علاوہ کوئي اجروثواب نہيں ) ۔
4 - قربانی :
عشرہ ذی الحجہ کے اعمال صالحہ میں قربانی کے ذریعہ اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنا بھی شامل ہے کہ قربانی کی جائے اوراللہ تعالی کےراستے میں مال خرچ کیا جائے ۔
لھذا ہميں ان فضيلت والے ايام سے فائدہ اٹھانا چاہئے يہ ہمارے لئے بہترين اور سنہري موقع ہے، قبل اس كے كہ ہم اپنى كوتاہى پر نادم ہوں، اور قبل اس كے كہ ہم واپس دنيا ميں آنے كا سوال كريں ليكن اس كي شنوائى نہ ہو.
واللہ اعلم .

الاسلام سوال وجواب
blogger

منگل

دعائیں قبول کیوں نہیں

  محمد جمیل اختر
یہ مسئلہ انتہائی اہم اور اکثر و بیشتر لوگوں سے سننے میں آیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے بکثرت دعا کرتے ہیں لیکن ان کی دعا قبول نہیں ہوتی! آخر و جہ کیا ہے کہ لوگوں کی دعا قبول نہیں ہوتی؟
یوں تو اس کی متعدد وجوہات ہیںلیکن بنیادی و جہ یہ ہے کہ دعا کرنے والا مسنون طریقے سے دعا نہیں مانگتا اور دعا کی قبولیت کی وہ شرائط، جن کا دھیان رکھنا ضروری ہے، ان کا اپنی دعا میں اہتمام نہیں کرتا۔ جس طرح ایک حکیم کسی مریض کو دوا دیتا ہے اور اس کے ساتھ کئی چیزوں سے احتیاط، اجتناب او رپرہیز بھی تجویز کرتا ہے کہ اگر مریض ان پر عمل کرے گا تو تندرست ہوجائے گا لیکن اگر وہ مریض ان تدابیر و تجاویز پر عمل نہ کرے اور جتنی چاہے دوا استعمال کرتا رہے تو وہ دوا کارگر ثابت نہیں ہوتی۔ اِلا کہ ان احتیاطوں اور تدابیر پر عمل نہ کرلے جو حکیم نے اسے بتائی ہیں۔ دعا کی قبولیت کی بھی اسی طرح چند شرائط ہیں جوقرآن و سنت سے حاصل ہوتی ہیں، جب تک ان شرائط پر عمل کرتے ہوئے دعا نہ کی جائے، دعا قبول نہ ہوں گی... وہ شرائط بالاختصار درجِ ذیل ہیں:
دُعا کی شرائط وضوابط
1 اخلاص
دعا کی قبولیت کے لئے سب سے اہم اور ضروری شرط یہ ہے کہ دعا کرنے والا اللہ تعالیٰ کو اپنا حقیقی معبود سمجھتے ہوئے صرف اور صرف اللہ تعالیٰ سے دعا کرے، غیر اللہ سے دعا نہ کرے۔ اللہ کے دَر کے علاوہ اور کے دَر پر اپنی جھولی نہ پھیلائے۔ خالق ِحقیقی کو چھوڑ کر مخلوق کے سامنے دست ِسوال دراز نہ کرے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: (فَادْعُوْہُ مخلصين لهَ الدِّينَ) (غافر:۶۵) ''تم خالص اسی کی عبادت کرتے ہوئے اسے پکارو۔'' حافظ ابن حجر عسقلانیؒ فرماتے ہیں ''اس آیت سے ثابت ہوا کہ اخلاص قبولیت ِدعا کی لازمی شرط ہے۔'' (فتح الباری:۱۱؍۹۵)
2 حرام سے اجتناب
کسی شخص کا کوئی نیک عمل اس وقت تک قابل قبول نہیں جب تک کہ وہ حرام کاری اور حرام خوری سے مکمل اجتناب نہ کرے۔ لیکن اگر وہ حرام کا کھائے، حرام کا پئے، حرام کا پہنے تو اس شخص کے نیک اعمال ہرگز شرفِ قبولیت حاصل نہیں کرسکتے اور چونکہ دعا بھی ایک نیک عمل ہے،اس لئے یہ بھی اسی صورت میں قبول ہوگی جب دعا کرنے والا ہر حرام کام سے اجتناب کرے۔ بصورتِ دیگر اس کی دعا ہرگز قبولیت کے لائق نہیں جیساکہ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: ''ایک آدمی لمبا سفر طے کرتا ہے، اس کی حالت یہ ہے کہ اس کے بال بکھرے ہوئے ہیں، چہرہ خاک آلود ہے اور وہ (بیت اللہ پہنچ کر) ہاتھ پھیلا کر کہتا ہے: یاربّ! یاربّ! حالانکہ اس کا کھانا حرام کا ہے، اس کا پینا حرام کا ہے، اس کا لباس حرام کا ہے او رحرام سے اس کی پرورش ہوئی تو پھر اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو کیسے قبول کرے۔'' (مسلم:۱۰۱۵)
3 توبہ
اگر دعا کرنے والا دعا کرے اور ساتھ گناہ والے کام بھی کرتا رہے یا ان سے توبہ نہ کرے تو ایسے شخص کی دعا بارگاہِ الٰہی میں شرف قبولیت حاصل نہیں کرسکتی۔ اس لئے دعا کرنے والے کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگے، توبہ اور استغفار کرے جیسا کہ حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا: (وَيقوْمِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْا إليه ُيرْسِلِ السَّمَائَ عليكم مِدْرَارًا وَّيزدْکُمْ قُوَّۃً إلٰی قُوَّتِکُمْ وَلاَ تَتَوَلَّوْا مُجْرِمينَ) (ھود:۵۲) ''اے میری قوم کے لوگو! تم اپنے پالنے والے سے اپنی تقصیروں کی معافی طلب کرو اور اس کی جناب میں توبہ کرو، تاکہ وہ برسنے والے بادل تم پربھیج دے اور تمہاری طاقت پر اور طاقت بڑھا دے اور تم گنہگار ہوکر روگردانی نہ کرو۔''
4 عاجزی و انکساری
دعا میں عاجزی و انکساری اختیار کرنے کا حکم قرآن مجید میں اس طرح دیا گیا کہ (اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وّخفية) (الاعراف:۵۵) ''تم لوگ اپنے پروردگار سے دعا کیا کرو گڑگڑا کر اور چپکے چپکے بھی ...''
اس آیت سے ثابت ہوا کہ دعا کرتے وقت اللہ تعالیٰ کے حضور خوب عاجزی کا اظہار کرنا چاہئے۔
5 دعا کے اندر زیادتی نہ کی جائے
اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی زیادتی و تجاوز سے منع فرمایا ہے بالخصوص دعا میں زیادتی سے منع کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: (اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّخخفيةً إنه لاَ يحب الْمُعْتَدِين) (الاعراف:۵۵) ''تم لوگ اپنے پروردگار سے دعا کیا کرو گڑگڑا کر او رچپکے چپکے بھی۔ واقعی اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ناپسند کرتا ہے جو حد سے نکل جائیں۔'' دعا میں زیادتی کی کئی صورتیں ہیں مثلاً حرام اور ممنوع چیزوں کے لئے دعا کرنا یا ہمیشگی کی زندگی کی دعا کرنا یا بلا و جہ کسی کے لئے بری دعا کرنا، اسی طرح کی تمام زیادتیوں سے اجتناب کرنا چاہئے۔
6 معلق دعا نہ کی جائے
معلق دعا سے مراد وہ دعا ہے جس میں دعا اس طرح کی جائے کہ اے اللہ! اگر تو چاہتا ہے تو مجھے عطا کردے اور اگر چاہتا ہے تو بخش دے۔ اس کامعنی یہ ہوا کہ یا اللہ اگر تو بخشنا نہیں چاہتا تو نہ بخشش ! اگر عطا نہیں کرنا چاہتا تو عطا نہ کر... تیری مرضی! حالانکہ نبیﷺ نے فرمایا: ''تم میں سے کوئی شخص ہرگز یہ نہ کہے کہ یا اللہ! اگر تو چاہے تو مجھے بخش دے، اگر تو چاہے تو مجھ پر رحم فرما بلکہ پورے عزم سے دعا کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ کو کوئی مجبور نہیں کرسکتا۔'' (بخاری:۶۳۳۹، مسلم :۲۶۷۸ عن ابی ہریرۃ)
7 غفلت اور سستی نہ دکھائی جائے
دعا مانگنے میں کسی قسم کی سستی نہیں برتنی چاہئے بلکہ پورے دھیان، توجہ اور چستی کے ساتھ دعا مانگنی چاہئے اور دعا مانگنے والے کا ذہن دعا کے اندر مشغول ہونا چاہئے نیز اس پر کسی قسم کی سستی (خیالات یا نیند وغیرہ) نہیں ہونی چاہئے۔ کیونکہ دعا کرنے والا اگر سستی میں مبتلا ہو گا یا غفلت کا شکار ہوگا تو اس کی دعا قبول نہیں ہوگی۔ اس لئے نبیﷺ نے فرمایا: ''اللہ سے اس یقین کے ساتھ دعا مانگو کہ دعا ضرور قبول ہوگی اور یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کسی غافل اور لاپرواہ دل سے نکلی دعا کو قبول نہیں فرماتے۔'' (ترمذی:۳۴۷۹، السلسلۃ الصحیحۃ : ۲؍۱۴۳)
دعا کے آداب
مذکورہ بالا شرائط ایسی ہیں جنہیں دعا میں ملحوظ خاطر رکھنا از بس ضروری ہے جبکہ ان کے علاوہ بعض آداب ایسے ہیں کہ اگر دعا کرنے والا ان کا بھی اہتمام کرے تو پھر اس کی دعا شرفِ قبولیت حاصل کئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ ان مستحب آداب میں سے چند ایک درج ذیل ہیں :
1 دعا سے پہلے طہارت (پاکیزگی)
دعا کرنے والے کے لئے مستحب ہے کہ ظاہری (باوضو) اور باطنی (استغفار) طہارت حاصل کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ سے دعا کرے۔ قبولیت دعا میں وضو کے مستحب ہونے کی دلیل ابوعامرؓ کی شہادت اور نبی اکرم ﷺ سے ان کے استغفار والے قصے میں موجود ہے کہ جب نبی اکرم ﷺ کو ان کی شہادت کی خبر پہنچی اور ان کے لئے استغفار کی درخواست کی گئی تو آپؐ نے پانی منگوایا پھر آپؐ نے وضو کرکے دعا فرمائی۔ (صحیح بخاری: ۴۳۲۳) لیکن یاد رہے کہ دعا سے پہلے باوضو ہونا ضروری نہیں کیونکہ نبی اکرم ا نے ہر دعا وضو کے ساتھ نہیں مانگی بلکہ کئی دعائیں آپؐ نے بغیر وضو کے مانگی ہیں۔
2 حمد و ثنا اور آنحضرت ﷺپر درود
دعا مانگنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان کی جائے اور بعد میں آنحضرت ا پر درود بھیجا جائے اور اس کے بعد اپنی حاجت کا سوال کیا جائے۔ یہ ترتیب مستحب ہے جیسا کہ فضالہ بن عبیدؓ کی حدیث میں ہے کہ '' رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو نماز میں دعا کرتے ہوئے سنا مگر اس نے آپؐ پر درود نہ بھیجا تو آپؐ نے فرمایا: ''عجل ھذا'' ''اس نے جلدی کی'' پھراسے بلاکر اور دوسرے لوگوں کو بھی فرمایا کہ ''جب تم میں سے کوئی دعا مانگے تو پہلے حمدوثنا کرے پھر نبی اکرم ا پر درود بھیجے پھر جو وہ چاہے دعا کرے۔'' (ابوداود:۱۴۸و سندہ صحیح ، صحیح الجامع :۱؍۲۳۸)
3 افضل حالت اور افضل مقام پر دعا
دعا کی قبولیت کے لئے یہ بھی مستحب ہے کہ انسان افضل حالت میں اور افضل جگہ پر دعا کرے۔ افضل حالت سے مراد یہ ہے کہ دعا مانگتے ہوئے انسان کی حالت افضل ہو۔ مثلاً سجدے اور رکوع کی حالت۔ جیسا کہ ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا: ''خبردار! میں تمہیں رکوع و سجود میں تلاوتِ قرآن سے منع کرتا ہوں لہٰذا رکوع میں ربّ تعالیٰ کی عظمت بیان کرو اور سجدے میں دعا کا اہتمام کرو کیونکہ سجدے میں دعا کی قبولیت کا امکان ہے۔'' (مسلم:۴۷۹)
افضل جگہ سے مراد یہ ہے کہ جس جگہ پرانسان دعا کررہا ہے وہ دوسری جگہوں سے افضل ہو مثلاً حرمین شریفین(بیت اللہ ومسجد نبوی)، مسا جد، مکہ مکرمہ وغیرہ۔ یہ ایسے مقامات ہیں جن میں دوسری جگہوں کی نسبت دعا جلدی قبول ہونے کا امکان ہوتا ہے، حتیٰ کہ مشرکین مکہ بھی اس بات کے قائل تھے کہ مکہ کے اندر دعا جلد قبول ہوتی ہے۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ ''جب کفار نے نبی اکرم ﷺ کی پشت پر حالت ِنماز میں اوجھ ڈالی تو (نبی کریم ﷺنے ان پر بددعا کی اور) ان پر نبی اکرم ﷺ کی بددعا گراں گزری کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ شہر مستجاب الدعوات ہے۔'' (بخاری :۲۴۰)
4 افضل وقت میں دعا
جس طرح قبولیت ِدعا کے لئے افضل حالت اور افضل جگہ کا ہونا مستحب ہے، اسی طرح افضل وقت میں دعا کرنا بھی مستحب ہے جیسے عرفہ کے دن یا رمضان المبارک کے مہینے میں دعا کرنا اور اس میں بھی بالخصوص آخری دس دن اور ان دس دنوں میں بھی طاق راتیں اور شب ِقدر زیادہ افضل ہیں۔ اسی طرح سحری کا وقت، جمعہ کا دن، اذان اور اقامت کا درمیانی وقت بھی افضل اوقات میں شامل ہے۔ حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ آپؐ نے فرمایا : ''اذان اور اقامت کے درمیان دعا ردّ نہیں ہوتی۔'' (احمد ۲؍۱۵۵، ترمذی : ۲۱۲)
5 گریہ زاری اور تکرار کے ساتھ دعا کرنا
اس کا مطلب یہ ہے کہ گڑ گڑاتے ہوئے اور باربار دہراتے ہوئے دعا کرنا جیسا کہ عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ ''اللہ کے رسولؐ کو یہ بات پسند تھی کہ تین تین مرتبہ دعا کی جائے اور تین تین مرتبہ استغفار کیا جائے۔'' (ابوداود:۱۵۲۴ ، ضعیف عند الالبانی ؒ)
6 اسماے حسنیٰ اور نیک اعمال کا وسیلہ
مستحب آداب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دعا کرنے والا اللہ تعالیٰ کے اچھے اچھے نام لے کر دعا کرے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: (وَللهِ الاَسْمَائُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہ ببها) اور اچھے اچھے نام اللہ ہی کے لئے ہیں تو ان ناموں کے ساتھ اللہ ہی کو پکارا کرو۔'' (اعراف :۱۸۰) اسی طرح دعا کرنے والے کو چاہئے کہ اپنے نیک اعمال کا وسیلہ پیش کرے کہ اے اللہ! میں نے محض تیری رضا کی خاطر فلاں فلاں نیک کام کیا، اے اللہ! مجھے بخش دے... اے اللہ میری مصیبت دور فرما... اے اللہ میرے حال پر رحم فرما...!!
7 جلد بازی سے پرہیز
بعض مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ دعا کرنے والا ان شرائط کو مدنظر رکھ کر دعا کرتا ہے لیکن پھر بھی اس کی دعا قبول نہیں ہوتی تو ایسے دعا کرنے والے کو چاہئے کہ وہ مایوس ہوکر جلد بازی میں اپنی دعا کو چھوڑ نہ دے بلکہ دعا مانگتا رہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''بندے کی دعا اس وقت تک قبول ہوتی ہے جب تک وہ جلدبازی کا مظاہرہ نہ کرے۔'' پوچھا گیا: یارسول اللہﷺ جلد بازی کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ بندے کا اس طرح کہنا کہ میں نے دعا کی، پھر دعا کی، لیکن وہ قبول نہیں ہوئی۔پھر وہ دل برداشتہ ہوکر دعا کو چھوڑ دے۔'' (یہ جلد بازی ہے) (بخاری :۶۳۴۰و مسلم :۲۷۳۵)
قبولیت ِدعا کی مختلف صورتیں
یاد رہے کہ ہر انسان کی ایسی دعا جو مذکورہ شرائط و آداب کے مطابق کی جائے، وہ قبول ضرور ہوتی ہے کیونکہ یہ اللہ کاوعدہ ہے جیساکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :(وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْ أسْتَجِبْ لَکُمْ) ''اور تمہارے ربّ کا فرمان ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا'' (غافر:۶۰) لیکن دعاکی قبولیت کی تین مختلف صورتیں ہیں جیساکہ حضرت ابوسعید خدریؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺنے ارشاد فرمایا : ''ما من مسلم يدعو بدعوۃ ليس فيها إثم ولا قطيعة رحم إلا أعطاہ الله بها إحدی ثلاث: إما أن تعجّل له دعوته، وإما أن يدخرھا له فی الآخرۃ، وإما أن يصرف عنهمن السوء مثلها، قالوا : إذًا نُکثر، قال: الله أکثر'' ''جب بھی کوئی مسلمان ایسی دعا کرے جس میں گناہ یا صلہ رحمی نہ ہو، تو اللہ ربّ العزت تین باتوں میں سے ایک ضرور اُسے نوازتے ہیں: یا تو اس کی دعا کو قبول فرما لیتے ہیں یا اس کے لئے آخرت میں ذخیرہ کردیتے ہیں اور یا اس جیسی کوئی برائی اس سے ٹال دیتے ہیں۔ صحابہؓ نے کہا: پھر تو ہم بکثرت دعا کریں گے۔ تو نبیؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس سے بھی زیادہ بخشنے (عطا کرنے) والا ہے۔'' (احمد :۳؍۱۸) اس حدیث سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ اگر کوئی مسلمان دعا کے مذکورہ بالا آداب وضوابط اور شروط و قواعد کو مد ِنظر رکھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور دست ِسوال دراز کرے تو اللہ تعالیٰ ضرور بضرور اس کی دعا قبول فرماتے ہیں۔ البتہ دعا کی قبولیت کی تین مختلف صورتیںہوسکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ سائل کو اس کے سوال ومطالبہ سے نواز کر اس کی دعا قبول کی جاتی ہے اور عموماً اسے ہی مقبول دعا خیال کیا جاتا ہے۔اس صورت کی مزید دو حالتیں ہیں، ایک تو یہ کہ ادھر دعا کی جائے او رادھر اسے فوراً قبول کرلیا جائے جس طرح حضرت زکریا ؑنے اللہ تعالیٰ سے طلب ِاولاد کی دعا ( رَبِّ هب لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّيةً طيبةً) (آلِ عمران: ۳۸) اے میرے ربّ! مجھے تو اپنے پاس سے اچھی اولاد عطا فرما۔'' تو اللہ تعالیٰ نے اُن کی دعا قبول کرلی اور فرشتوں کے ذریعے انہیں باخبر کیا کہ (اِنَّ اللهُ يبشرکَ بيحي) (آلِ عمران: ۳۹) ''یقینا اللہ تعالیٰ آپ کو حضرت یحییٰ (بیٹے) کی خوشخبری دیتے ہیں۔'' دنیا میں قبولیت ِدعا کی دوسری حالت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ دعا طویل عرصہ کے بعد قبول ہو جیسے حضرت ابراہیم نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی: (رَبَّنَا وَابْعَثْ فيهم رَسُوْلاً...) (البقرۃ:۱۲۹) اے ہمارے ربّ ! ان میں سے رسول بھیج...'' جبکہ ابراہیم علیہ السلام کی یہ دعا سینکڑوں برس کے بعد قبول ہوئی اور ابراہیم نے جس رسول کی بعثت کی دعا فرمائی، وہ آنحضرت ﷺ کی صورت میں قبول ہوئی۔ جیسا کہ آنحضرتؐ ہی فرماتے ہیں: (الفتح الربانی: ۲۰؍۱۸۱) ''میں اپنے باپ حضرت ابراہیمؑ کی دعا، حضرت عیسیٰؑ کی بشارت اور اپنی والدہ کا خواب ہوں۔'' جبکہ اس کے علاوہ بھی قبولیت کی دو صورتیں ہیں جنہیں لوگ 'قبولِ دعا' کی فہرست میں شامل نہیں سمجھتے، یعنی سائل کی دعا دنیا میں تو پوری نہیں ہوئی، البتہ اس دعا کو روزِ قیامت اجروثواب بنا کر سائل کے نامہ اعمال میں شامل کردیا جائے گا یا بسا اوقات اس دعا کی برکت سے سائل و داعی سے کسی آنے والی مصیبت کو ٹال دیا جاتا ہے جس کا اندازہ دعا کرنے والے کو نہیں ہو پاتا اور وہ یہی سمجھتا کہ شاید اس کی دعا قبول نہیں ہوئی جبکہ اس کی دعا بارگاہِ خداوندی میں قبول ہوتی ہے مگر اس قبولیت کی صورت ہمارے خیالات سے کہیں بالا ہوتی ہے۔
بعض اوقات دعا کی جو صورت ہمارے سامنے ہے، اللہ اس سے بہتر صورت میں اس کی تکمیل کردیتے ہیں، اور وہی ہمارے حالات کے زیادہ موافق ومناسب ہوتی ہے، تو یہ بھی قبولیت ِدعا کی ایک صورت ہے۔ اس میں بعض اوقات تاخیر ہوتی ہے۔ بعض اوقات ہم اس قبولیت ِدعا کو بظاہر اپنے لئے اچھا خیال نہیں کرتے لیکن وسیع تناظر میں یا دور اندیشی کے طور پروہی بات ہمارے حق میں زیادہ بہتر ہوتی ہے۔ الغرض آداب و شروطِ دعا کو مدنظر رکھتے ہوئے دعا مانگی جائے تو وہ کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔
blogger

اتوار

رمضان المبارک میں موسیقی سننا

کیا روزہ کی حالت میں موسیقی سننا حرام ہے ؟
الحمد للہ
موسیقی تو ہرحالت میں سننا حرام ہے چاہے وہ رمضان میں ہو یا عام حالت میں ، لیکن اتنا ہے کہ رمضان المبارک میں تو اس کی حرمت اورشدید ہوجاتی ہے اورگناہ بھی بڑھ جاتا ہے ، کیونکہ روزے کامقصد یہ نہيں کہ صرف کھانے پینے سے رکا جائے ، بلکہ اس کا مقصد تو یہ ہے کہ اللہ تعالی کا تقوی اختیار کیا جائے اور روزہ میں اعضاء کا روزہ یہ ہے کہ وہ اللہ تعالی کی معصیت سے اجتناب کریں ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
{ اے ایمان والو ! تم پر روزے رکھنے فرض کیے گئے ہیں جس طرح کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گۓ تھے ، تا کہ تم تقوی اختیار کرو } البقرۃ (183 )
اورنبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( کھانے پینے سے رکنے کا نام روزہ نہيں ، بلکہ روزہ تو لغواوربرے کاموں اورباتوں سے بچنے کا نام ہے ) اسے امام حاکم نے روایت کیا اوراسے مسلم کی شرط پر قرار دیا ہے ۔ ا ھـ
مزید تفصیل کے لیے آپ سوال نمبر ( 37989 ) کے جواب کا مطالعہ کریں
سنت نبویہ سے صراحتا موسیقی کی حرمت ثابت ہوتی ہے ، مندرجہ ذيل حدیث بھی اسی پر دلالت کررہی ہے :
امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے تعلیقا روایت کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( میری امت میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہونگے جوزنا اورریشم ، شراب اورموسیقی وغیرہ کوحلال کرلیں گے ۔۔۔ ) امام طبرانی اوربیھقی نے اس حدیث کو موصول بیان کیا ہے ۔
حدیث میں الحر سے زنا مراد ہے ۔
اورالمعازف سے مراد موسیقی کے آلات ہیں ۔
اس حدیث سے دو وجوہ کی بنا پر آلات موسیقی کی حرمت ثابت ہوتی ہے :
اول : نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ ( حلال کرلیں گے ) یہ اس بات کی صراحت ہے کہ اشیاء مذکورہ حرام ہیں اورکچھ لوگ انہيں حلال کرلیں گے ۔
دوم : المعازف یعنی موسیقی کے آلات کو زنا اورشراب کے ساتھ ملا کرذکر کیا ہے جن کی حرمت قطعی ہے ، اگر وہ حرام نہ ہوتیں تو آپ اسے ان کےساتھ ملا کر ذکر نہ کرتے ۔
دیکھیں السلسلۃ الصحیحۃ للالبانی حدیث نمبر ( 91 ) ۔
مومن اورمسلمان پر واجب ہے کہ وہ اس مبارک ماہ کے قریب ہو اوراس ماہ میں اپنے رب کا قرب اختیار کرے اوراللہ تعالی کے سامنے توبہ کرتے ہوئےان سب حرام کاموں سے باز آجائے اوراجتناب کرے جن کی اسے رمضان سے قبل عادت تھی ، توہوسکتا ہے پھر اللہ تعالی بھی اس کےروزے قبول فرمائے اوراس کی حالت سنوار دے اوراس کی اصلاح کردے ۔
واللہ اعلم .

الاسلام سوال وجواب
blogger

رمضان المبارك شروع ہونے كى مباركباد دينى

كيا رمضان المبارك شروع ہونے كى مباركباد دينا جائز ہے، يا يہ بدعت شمار ہوتى ہے ؟


الحمد للہ:
رمضان المبارك شروع ہونے كى مباركباد دينے ميں كوئى حرج نہيں، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے صحابہ كرام كو رمضان المبارك آنے كى خوشخبرى ديتے اور انہيں اس كا خيال ركھنے پر ابھارتے تھے.
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تمہارے پاس بابركت مہينہ آيا ہے، اللہ تعالى نے اس كے روزے تم پر فرض كيے ہيں، اس ميں آسمان كے دروازے كھول ديے جاتے ہيں، اور جہنم كے دروازے بند كر ديے جاتے ہيں، اور سركش قسم كے شياطين پابندسلاسل كر ديے جاتے ہيں، اس ميں ايك رات ايسى ہے جو ايك ہزار راتوں سے بہتر ہے جو اس كى بھلائى اور خير سے محروم كر ديا گيا تو وہ محروم ہے"
سنن نسائى ( 4 / 129 ) صحيح الترغيب ( 1 / 490 ).
واللہ اعلم .

الله تعالیٰ ہم سب کو اس بابرکت مہینے میں زیادہ زیادہ  سے نیک عمال کرنے کی توفیق دے آمین سومه آمین.
blogger

پیر

رمضان ميں دن كے وقت رحم كا چيك اپ كرانے كے ليے ايكسرے كرانا

ميں پندرہ برس كى ہوں اور آخرى تين ماہ مجھے ماہوارى منظم طريقہ سے نہيں آئى، اور اب رمضان سے دو يوم قبل تو تقريبا ميں چھ ہفتوں سے حيض كى حالت ميں ہوں، اور خون بند نہيں ہو رہا، يقينا يہ خون استحاضہ كا ہے حيض كا نہيں جيسا كہ ڈاكٹر كہتى ہے. 
اس كا سبب ليڈى ہارمون ميں مشكلات ہے، ليڈى ڈاكٹر نے مجھے الٹر ساؤنڈ كرانے كا كہا ہے تا كہ ميرے سپرم چيك كيے جا سكيں كہ ان كى حالت كيا ہے، اور يہ چيك اپ تقريبا پندرہ رمضان المبارك صبح كے وقت ہو گا، مشكل يہ ہے كہ مجھے اس دن روزہ نہيں ركھنا كيونكہ الٹرساؤنڈ سے قبل مجھے پانى ضرورى پينا ہوگا. 
ميرا سوال يہ ہے كہ: آيا ميرے ليے يہ چيك كرانا صحيح ہے يا كہ ميں رمضان كے بعد كراؤں ؟ اور اگر رمضان كے بعد تك مؤخر نہيں كرتى تو كيا ميں گنہگار ٹھروں گى ؟ يہ علم ميں رہے كہ ڈاكٹر سے ٹائم ملنا بہت مشكل ہے اور مجھے يہ ٹيسٹ كرانے كے ليے تقريبا ايك ماہ انتظار كرنا ہو گا ؟
الحمد للہ:
اول:
مريض كے ليے رمضان البمارك ميں روزہ چھوڑنا جائز ہے اور جتنے روزے چھوڑے بعد ميں ركھ سكتا ہے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ اور جو كوئى بھى مريض ہو يا مسافر تو وہ دوسرے ايام ميں گنتى پورى كرے، اللہ تعالى تمہارے ساتھ آسانى چاہتا ہے اور تمہارے ساتھ تنگى نہيں كرنا چاہتا }البقرۃ ( 185 ).
استحاضہ اور مسلسل خون آنا ايك قسم كى بيمارى ہے اور يہ نفس اور بدن پر اثرانداز ہو سكتى ہے، اس ليے جس كا علاج كراناضرورى ہے اس كا چيك اپ كرانے ميں كوئى حرج نہيں، چاہے يہ رمضان المبارك ميں دن كے وقت ہى كرانا پڑے ليكن بہتر ہے كہ اسے رات تك مؤخر كر ديا جائے.
اور يہ معلوم ہونا چاہيے كہ يہ چيك اپ اور الٹرا ساونڈ كرانے سے روزہ نہيں ٹوٹتا جب تك كہ مريض منہ يا ناك كے راستے كوئى دوائى نہ كھائے.
روزہ توڑنے اور نہ توڑنے والى اشياء كا تفصيلى بيان سوال نمبر ( 2299 ) كے جواب ميں گزر چكا ہے آپ اس كا مطالعہ كريں.
اور اگر يہ چيك اپ كوئى دوائى يا پانى نوش كرنے كا محتاج ہے، اور يہ فجر سے قبل نوش كرنى ممكن ہو تو آپ ايسا كر ليں، وگرنہ آپ كے ليے روزہ نہ ركھنا بھى جائز ہے.
دوم:
اكثر علماء كے ہاں حيض كى زيادہ سے زيادہ مدت پندرہ يوم ہے، اس سے زائد نہيں ہو سكتى.
اس بنا پر ليڈى ڈاكٹر نے آپ كو جو كہا ہے وہ صحيح ہے كہ آپ كو آنے والا خون استحاضہ كا خون ہے حيض كا نہيں، استحاضہ كے خون كا حكم جاننے كے ليے اور يہ معلوم كرنے كے ليے كہ آنے والا خون كب حيض كا خون ہوتا ہے آپ سوال نمبر ( 68818 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .

blogger

رمضان المبارك ميں قرآن مجيد كى تلاوت كا وقت نہيں ملتا

رمضان المبارك كى مباركباد قبول فرمائيں، رمضان شروع ہوتے وقت ميں نے اپنے ساتھ وعدہ كيا تھا كہ قرآن مجيد ختم كرونگا، ليكن افسوس ميں صبح چھ بجے اٹھتا ہوں اور ساڑھے پانچ بجے گھر واپس لوٹتا ہوں، اور افطارى كے بعد ہمت نہيں ہوتى تو رات دس بجے تك سوتا ہوں، اور پھر سحرى تك بيدار رہتا ہوں، تقريبا سويا ہى ہوتا ہوں بارہ بجے تك سو جاتا ہوں تا كہ صبح اٹھ سكوں، برائے مہربانى يہ بتائيں كہ مجھے كيا كرنا چاہيے ؟

الحمد للہ:
ہم بھى آپ كو رمضان كريم كى مبارك ديتے ہيں، اور اللہ سے دعا كرتے ہيں كہ وہ اپنا ذكر و شكر اور اچھى طرح عبادت كرنے ميں معاونت فرمائے.
مسلمان شخص سے مطلوب يہ ہے كہ وہ دنيا و آخرت كى مصلحت اكٹھى اور جمع كرے، نہ تو وہ ان افراد ميں شامل ہو جو دنيا اس دليل سے چھوڑ ديتے ہيں كہ وہ آخرت چاہتے ہيں اور اپنى دنيا خراب كر ليتے ہيں.
اور نہ ہى ان ميں شامل ہو جو آخرت كو چھوڑ كر دنيا كى طرف ہى دوڑ پڑتے ہيں.
بلكہ دنيا سے مقصود يہ ہے كہ اس سے آخرت كا زاد راہ تيار كيا جائے، كيونكہ دنيا دار قرار نہيں، بلكہ يہ تو ايك راستہ ہے جس سے انسان نے گزر كر آخرت كى طرف جانا ہے.
لہذا عقلمند مومن وہى ہے جو اس دار آخرت ميں جانے كى تيارى كرتا ہے، اسى ليے جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عقلمند كے بارہ ميں دريافت كيا گيا كہ:
" لوگوں ميں سب سے عقل و دانش والا شخص كون ہے ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
جو موت كو سب سے زيادہ ياد كرتا ہو، اور اس كى سب سے زيادہ تيارى كرے "
اسے امام طبرانى نے روايت كيا ہے، اور علامہ منذرى نے الترغيب و الترھيب ( 4 / 197 ) اور الھيثمى نے مجمع الزوائد ( 10 / 312 ) ميں حسن قرار ديا ہے.
اور الاحياء كى احاديث كى تخريج ميں علامہ عراقى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اس كى سند جيد ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے الترغيب ( 1964 ) ميں ضعيف كہا ہے.
ديكھيں: الاحياء ( 5 / 194 ).
اس ليے رحلت كے دن يعنى موت كے ليے تيارى كرنا ضرورى ہے، كيونكہ يہ تو ايك عارضى ٹھكانہ ہے، اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ ہميں اپنى رحمت ميں جمع كرے.
اس ليے مسلمان شخص كو چاہيے كہ وہ دنيا و آخرت دونوں كے عمل جمع كرے، كيونكہ انسان كو رہائش كى ضرورت ہے، اور مال كى بھى اور لباس كى بھى، اور اسى طرح كھانے پينے كى بھى تا كہ وہ زندہ رہے، اور اسے صحيح ايمان اور عقيدہ كى بھى ضرورت ہے، اور نماز روزہ كى بھى، اور اللہ كا ذكر كرنے كى بھى، اور قرآن مجيد كى تلاوت كرنے كى بھى اور اسى طرح لوگوں كے ساتھ حسن سلوك كرنے كى بھى..... تا كہ وہ اپنے دل كو زندہ ركھ سكے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ اے ايمان والو! اللہ تعالى اور اس كے رسول كى بات مانو جب وہ تمہيں اس كى طرف بلائيں جو تمہيں زندہ ركھنے كا باعث ہے }الانفال ( 24 ).
لہذا مسلمان رمضان اور رمضان كے علاوہ قرآن مجيد كى تلاوت كرنے كا محتاج ہے، اسے چاہيے كہ وہ روزانہ قرآن مجيد كى كچھ تلاوت كيا كرے، تا كہ زيادہ سے زيادہ چاليس يوم ميں قرآن مجيد ختم كر لے.
ليكن رمضان المبارك ميں تو اس سے بھى زيادہ مطلوب ہے كيونكہ يہ افضل مہينہ اور اطاعت اور قرآن مجيد كى تلاوت كا موسم ہے.
فرمان بارى تعالى ہے:
{ رمضان وہ مہينہ ہے جس ميں ہم نے قرآن مجيد نازل فرمايا }البقرۃ ( 185 ).
اس ليے آپ اپنے پورے دن ميں سے ايك گھنٹہ قرآن مجيد كى تلاوت كے ليے نكال سكتے ہيں جس ميں دو پاروں سے زيادہ قرآن مجيد كى تلاوت ہو سكتى ہے، اس طرح آپ ماہ رمضان ميں دو يا تين بار ختم كر سكتے ہيں.
اس طرح آپ مواصلات ميں جو وقت گزارتے ہيں اس سے بھى مستفيد ہو سكتے ہيں، قرآن مجيد آپ كے ساتھ ہونا چاہيے اس طرح آپ اس قليل سے وقت ميں كئى بار قرآن مجيد ختم كر سكتے ہيں، يا پھر ملازمت ميں آپ اپنے مالك سے يہ طے كر سكتے ہيں كہ وہ آپ كى ڈيوٹى ميں كچھ كمى كر دے چاہے اس سے وہ تنخواہ كم كر لے، اللہ تعالى آپ كواس كا نعم البدل عطا فرمائيگا.
اور يہ بھى ممكن ہے كہ آپ آخرى عشرہ كى چھٹياں حاصل كر ليں، يا دس نہيں كم چھٹياں لے ليں، بہر حال آپ اس ماہ مبارك سے فائدہ حاصل كريں، جتنى استطاعت و طاقت ہے اس كے مطابق عمل كريں، اور پھر فرصت موجود ہے، اور دن باقى ہيں اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ اطاعت كى توفيق دے.
اور اگر ڈيوٹى ميں كمى نہيں ہو سكتى يا پھر آپ چھٹى نہيں لے سكتے تو آپ بقدر استطاعت وقت سے فائدہ اٹھائيں جب اللہ تعالى جان لےگا كہ آپ قرآن مجيد كى تلاوت كى حرص ركھتے ہيں اگر كام نہ ہوتا تو ضرور كرتے، تو ان شاء اللہ اللہ تعالى آپ كو ضرور ثواب سے نوازےگا، جس قدر آپ كى نيت ہو گى اسى قدر ثواب بھى ملےگا.
اللہ سبحانہ و تعالى آپ كو ايسے عمل كرنے كى توفيق دے جنہيں وہ پسند كرتا ہے اور جن سے راضى ہوتا ہے.
واللہ اعلم .
blogger

فوت شدہ پر رمضان ميں دن كے وقت جماع كا كفارہ ہونے كى صورت ميں اولاد كيا كرے ؟

ميرے والد صاحب فوت ہو چكے ہيں اللہ ان پر ر حم كرے اور ان كا مال بھى ورثاء ميں تقسيم ہو چكا ہے، ميرى والدہ نے مجھے بتايا كہ آپ كے والد نے پچيس تيس برس قبل ميرے ساتھ رمضان المبارك ميں دن كے وقت ہم بسترى كر لى تھى، اور والدہ اس پر موافق نہيں تھى، والدہ نے مجھے يہ اس وقت بتايا جب وہ آپريشن كے بعد ہاسپٹل سے باہر آ رہى تھيں.
انہوں نے مجھے بتايا كہ ميں نے آپ كے والد كو كہا تھا كہ ايسا كرنا جائز نہيں، اسے چاہيے كہ وہ اس كے متعلق دريافت كرے، تو آپ كے والد نے كہا كہ اس نے توبہ كر لى ہے اور اللہ غفور رحيم ہے.
والدہ كہتى ہيں كہ شرم و حياء كى بنا پر انہوں نے نہ تو سوال دريافت كيا اور نہ ہى ہميں بتايا، والدہ اس كے كفارہ ميں دو ماہ كے روزے ركھنا چاہتى ہے ميں نے انہيں بتايا كہ اس واقعہ ميں ان كا كوئى قصور اور گناہ نہيں اس ليے آپ پر كچھ لازم نہيں آتا، اس كے علاوہ يہ بھى ہے كہ والدہ كى صحت بھى ايسا كرنے كى اجازت نہيں ديتى، لہذا آپ بتائيں كہ ہمارى والدہ پر كيا لازم آتا ہے، اور ہمارے فوت شدہ والد كے متعلق اولاد ہونے كے ناطے ہم پر كيا لازم آتا ہے ؟
الحمد للہ:
اول:
اگر تو آپ كى والدہ كو رمضان المبارك ميں دن كے وقت جماع پر مجبور كيا گيا اور خاوند نے اسے ہم بسترى پر مجبور كيا تو آپ كى والدہ پر كفارہ نہيں ہے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" بلاشبہ اللہ سبحانہ و تعالى نے ميرى امت سے خطا و بھول چوك اور جس پر انہيں مجبور كيا گيا ہو معاف كر ديا ہے "
سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2043 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابن ماجہ ميں اس حديث كو صحيح قرار ديا ہے.
ليكن اگر آپ كى والدہ اس پر راضى تھى تو اس پر بھى روزے كى قضاء اور كفارہ ہے.
رمضان المبارك ميں جماع كرنے والے شخص كے بارہ ميں مستقل فتوى كميٹى كے علماء كا كہنا ہے:
" اس پر ايك غلام آزاد كرنا واجب ہے، اگر اس كى استطاعت نہيں تو پھر وہ مسلسل دو ماہ كے روزے ركھے، اور اگر اس كى بھى استطاعت نہيں ركھتا تو ساٹھ مسكينوں كو كھانا دے، ہر مسكين كو ايك مد گندم دے، اور اس كو اس روزے كى بھى قضاء كرنا ہو گى.
ليكن عورت نے اگر تو يہ كام راضى و خوشى كيا تو اس كا حكم بھى مرد والا ہے، اور اگر عورت كو ايسا كرنے پر مجبور كيا گيا ہے تو اس پر صرف روزے كى قضاء ہو گى " انتہى.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 10 / 302 ).
اور جب اس پر كفارہ واجب ہو اور آپ يہ كہہ رہے ہيں كہ وہ روزے ركھنے كى استطاعت نہيں ركھتى تو اس كو چاہيے كہ وہ ساٹھ مسكينوں كو كھانا كھلا دے.
مزيد آپ سوال نمبر ( 1672 ) كے جواب كا مطالعہ كريں اس ميں دن كے وقت رمضان ميں ہم بسترى كرنے كا كفارہ بيان كيا گيا ہے.
دوم:
اور آپ كے والد كے بارہ ميں يہ ہے كہ اس پر مسلسل دو ماہ كے روزے ركھنا واجب تھے، اور جس دن ميں اس نے ہم بسترى كى اس روزہ كى قضاء كرنا تھى، اور جبكہ وہ فوت ہو چكا ہے اور ايسا نہيں كيا اس ليے يا تو اس كى جانب سے كوئى روزے ركھے اور مسلسل دو ماہ كے روزے ركھے كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جو فوت ہو جائے اور اس كے ذمہ روزے ہوں تو اس كى جانب سے اس كا ولى روزے ركھے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1147 ).
اور يہ دو ماہ كے روزے ايك سے زيادہ اشخاص ميں تقسيم كرنا جائز نہيں، بلكہ صرف ايك ہى شخص مسلسل دو ماہ كے روزے ركھے تا كہ يہ صادق آئے كہ اس نے دو ماہ كے مسلسل روزے ركھے ہيں.
يا پھر اس كى جانب سے ہر دن ايك مسكين كو كھانا كھلا دو.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اگر ميت كے ذمہ دو ماہ كے مسلسل روزے ركھنا واجب ہوں، يا تو اس كے ورثاء ميں سے كوئى ايك شخص وہ روزے ركھے، يا پھر ہر ايك دن كے بدلے ايك مسكين كو كھانا كھلا دے " انتہى
ديكھيں: الشرح الممتع ( 6 / 453 ).
اور شيخ رحمہ اللہ كا يہ بھى كہنا ہے:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ اگر كوئى شخص فوت ہو جائے اور اس كے ذمہ رمضان كے فرضى روزے يا نذر يا كفارہ كے روزے ہوں تو اس كا ولى اس كى جانب سے جب چاہے روزے ركھے " انتہى
ديكھيں: فتاوى نور على الدرب ( 199 / 20 ).
اور شيخ سعدى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جس فوت شدہ شخص كے ذمہ رمضان المبارك كے روزے ہوں اور وہ تندرست ہو جانے كے باوجود روزے نہ ركھے تو اس كى جانب سے ہر روزے كے بدلے ايك مسكين كو كھانا كھلانا واجب ہے جتنے روزے ہوں اتنے ايام كھانا كھلايا جائے.
اور شيخ تقى الدين ابن تيميہ كے ہاں يہ ہے كہ: اگر اس كى جانب سے روزے ركھے جائيں تو كفائت كر جائينگے، اور يہ قوى الماخذ ہے " انتہى
ديكھيں: ارشاد اولى البصائر و الالباب ( 79 ).
اور يہ كھانا كھلانا تركہ ميں سے واجب ہے، اور اگر كوئى شخص كھلا دے اور اپنے مال سے ادائيگى كر دے تو اس ميں كوئى حرج نہيں.
واللہ اعلم .

blogger