اتوار

رمضان المبارک میں موسیقی سننا

کیا روزہ کی حالت میں موسیقی سننا حرام ہے ؟
الحمد للہ
موسیقی تو ہرحالت میں سننا حرام ہے چاہے وہ رمضان میں ہو یا عام حالت میں ، لیکن اتنا ہے کہ رمضان المبارک میں تو اس کی حرمت اورشدید ہوجاتی ہے اورگناہ بھی بڑھ جاتا ہے ، کیونکہ روزے کامقصد یہ نہيں کہ صرف کھانے پینے سے رکا جائے ، بلکہ اس کا مقصد تو یہ ہے کہ اللہ تعالی کا تقوی اختیار کیا جائے اور روزہ میں اعضاء کا روزہ یہ ہے کہ وہ اللہ تعالی کی معصیت سے اجتناب کریں ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
{ اے ایمان والو ! تم پر روزے رکھنے فرض کیے گئے ہیں جس طرح کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گۓ تھے ، تا کہ تم تقوی اختیار کرو } البقرۃ (183 )
اورنبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( کھانے پینے سے رکنے کا نام روزہ نہيں ، بلکہ روزہ تو لغواوربرے کاموں اورباتوں سے بچنے کا نام ہے ) اسے امام حاکم نے روایت کیا اوراسے مسلم کی شرط پر قرار دیا ہے ۔ ا ھـ
مزید تفصیل کے لیے آپ سوال نمبر ( 37989 ) کے جواب کا مطالعہ کریں
سنت نبویہ سے صراحتا موسیقی کی حرمت ثابت ہوتی ہے ، مندرجہ ذيل حدیث بھی اسی پر دلالت کررہی ہے :
امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے تعلیقا روایت کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( میری امت میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہونگے جوزنا اورریشم ، شراب اورموسیقی وغیرہ کوحلال کرلیں گے ۔۔۔ ) امام طبرانی اوربیھقی نے اس حدیث کو موصول بیان کیا ہے ۔
حدیث میں الحر سے زنا مراد ہے ۔
اورالمعازف سے مراد موسیقی کے آلات ہیں ۔
اس حدیث سے دو وجوہ کی بنا پر آلات موسیقی کی حرمت ثابت ہوتی ہے :
اول : نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ ( حلال کرلیں گے ) یہ اس بات کی صراحت ہے کہ اشیاء مذکورہ حرام ہیں اورکچھ لوگ انہيں حلال کرلیں گے ۔
دوم : المعازف یعنی موسیقی کے آلات کو زنا اورشراب کے ساتھ ملا کرذکر کیا ہے جن کی حرمت قطعی ہے ، اگر وہ حرام نہ ہوتیں تو آپ اسے ان کےساتھ ملا کر ذکر نہ کرتے ۔
دیکھیں السلسلۃ الصحیحۃ للالبانی حدیث نمبر ( 91 ) ۔
مومن اورمسلمان پر واجب ہے کہ وہ اس مبارک ماہ کے قریب ہو اوراس ماہ میں اپنے رب کا قرب اختیار کرے اوراللہ تعالی کے سامنے توبہ کرتے ہوئےان سب حرام کاموں سے باز آجائے اوراجتناب کرے جن کی اسے رمضان سے قبل عادت تھی ، توہوسکتا ہے پھر اللہ تعالی بھی اس کےروزے قبول فرمائے اوراس کی حالت سنوار دے اوراس کی اصلاح کردے ۔
واللہ اعلم .

الاسلام سوال وجواب
blogger

رمضان المبارك شروع ہونے كى مباركباد دينى

كيا رمضان المبارك شروع ہونے كى مباركباد دينا جائز ہے، يا يہ بدعت شمار ہوتى ہے ؟


الحمد للہ:
رمضان المبارك شروع ہونے كى مباركباد دينے ميں كوئى حرج نہيں، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے صحابہ كرام كو رمضان المبارك آنے كى خوشخبرى ديتے اور انہيں اس كا خيال ركھنے پر ابھارتے تھے.
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تمہارے پاس بابركت مہينہ آيا ہے، اللہ تعالى نے اس كے روزے تم پر فرض كيے ہيں، اس ميں آسمان كے دروازے كھول ديے جاتے ہيں، اور جہنم كے دروازے بند كر ديے جاتے ہيں، اور سركش قسم كے شياطين پابندسلاسل كر ديے جاتے ہيں، اس ميں ايك رات ايسى ہے جو ايك ہزار راتوں سے بہتر ہے جو اس كى بھلائى اور خير سے محروم كر ديا گيا تو وہ محروم ہے"
سنن نسائى ( 4 / 129 ) صحيح الترغيب ( 1 / 490 ).
واللہ اعلم .

الله تعالیٰ ہم سب کو اس بابرکت مہینے میں زیادہ زیادہ  سے نیک عمال کرنے کی توفیق دے آمین سومه آمین.
blogger

پیر

رمضان ميں دن كے وقت رحم كا چيك اپ كرانے كے ليے ايكسرے كرانا

ميں پندرہ برس كى ہوں اور آخرى تين ماہ مجھے ماہوارى منظم طريقہ سے نہيں آئى، اور اب رمضان سے دو يوم قبل تو تقريبا ميں چھ ہفتوں سے حيض كى حالت ميں ہوں، اور خون بند نہيں ہو رہا، يقينا يہ خون استحاضہ كا ہے حيض كا نہيں جيسا كہ ڈاكٹر كہتى ہے. 
اس كا سبب ليڈى ہارمون ميں مشكلات ہے، ليڈى ڈاكٹر نے مجھے الٹر ساؤنڈ كرانے كا كہا ہے تا كہ ميرے سپرم چيك كيے جا سكيں كہ ان كى حالت كيا ہے، اور يہ چيك اپ تقريبا پندرہ رمضان المبارك صبح كے وقت ہو گا، مشكل يہ ہے كہ مجھے اس دن روزہ نہيں ركھنا كيونكہ الٹرساؤنڈ سے قبل مجھے پانى ضرورى پينا ہوگا. 
ميرا سوال يہ ہے كہ: آيا ميرے ليے يہ چيك كرانا صحيح ہے يا كہ ميں رمضان كے بعد كراؤں ؟ اور اگر رمضان كے بعد تك مؤخر نہيں كرتى تو كيا ميں گنہگار ٹھروں گى ؟ يہ علم ميں رہے كہ ڈاكٹر سے ٹائم ملنا بہت مشكل ہے اور مجھے يہ ٹيسٹ كرانے كے ليے تقريبا ايك ماہ انتظار كرنا ہو گا ؟
الحمد للہ:
اول:
مريض كے ليے رمضان البمارك ميں روزہ چھوڑنا جائز ہے اور جتنے روزے چھوڑے بعد ميں ركھ سكتا ہے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ اور جو كوئى بھى مريض ہو يا مسافر تو وہ دوسرے ايام ميں گنتى پورى كرے، اللہ تعالى تمہارے ساتھ آسانى چاہتا ہے اور تمہارے ساتھ تنگى نہيں كرنا چاہتا }البقرۃ ( 185 ).
استحاضہ اور مسلسل خون آنا ايك قسم كى بيمارى ہے اور يہ نفس اور بدن پر اثرانداز ہو سكتى ہے، اس ليے جس كا علاج كراناضرورى ہے اس كا چيك اپ كرانے ميں كوئى حرج نہيں، چاہے يہ رمضان المبارك ميں دن كے وقت ہى كرانا پڑے ليكن بہتر ہے كہ اسے رات تك مؤخر كر ديا جائے.
اور يہ معلوم ہونا چاہيے كہ يہ چيك اپ اور الٹرا ساونڈ كرانے سے روزہ نہيں ٹوٹتا جب تك كہ مريض منہ يا ناك كے راستے كوئى دوائى نہ كھائے.
روزہ توڑنے اور نہ توڑنے والى اشياء كا تفصيلى بيان سوال نمبر ( 2299 ) كے جواب ميں گزر چكا ہے آپ اس كا مطالعہ كريں.
اور اگر يہ چيك اپ كوئى دوائى يا پانى نوش كرنے كا محتاج ہے، اور يہ فجر سے قبل نوش كرنى ممكن ہو تو آپ ايسا كر ليں، وگرنہ آپ كے ليے روزہ نہ ركھنا بھى جائز ہے.
دوم:
اكثر علماء كے ہاں حيض كى زيادہ سے زيادہ مدت پندرہ يوم ہے، اس سے زائد نہيں ہو سكتى.
اس بنا پر ليڈى ڈاكٹر نے آپ كو جو كہا ہے وہ صحيح ہے كہ آپ كو آنے والا خون استحاضہ كا خون ہے حيض كا نہيں، استحاضہ كے خون كا حكم جاننے كے ليے اور يہ معلوم كرنے كے ليے كہ آنے والا خون كب حيض كا خون ہوتا ہے آپ سوال نمبر ( 68818 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .

blogger

رمضان المبارك ميں قرآن مجيد كى تلاوت كا وقت نہيں ملتا

رمضان المبارك كى مباركباد قبول فرمائيں، رمضان شروع ہوتے وقت ميں نے اپنے ساتھ وعدہ كيا تھا كہ قرآن مجيد ختم كرونگا، ليكن افسوس ميں صبح چھ بجے اٹھتا ہوں اور ساڑھے پانچ بجے گھر واپس لوٹتا ہوں، اور افطارى كے بعد ہمت نہيں ہوتى تو رات دس بجے تك سوتا ہوں، اور پھر سحرى تك بيدار رہتا ہوں، تقريبا سويا ہى ہوتا ہوں بارہ بجے تك سو جاتا ہوں تا كہ صبح اٹھ سكوں، برائے مہربانى يہ بتائيں كہ مجھے كيا كرنا چاہيے ؟

الحمد للہ:
ہم بھى آپ كو رمضان كريم كى مبارك ديتے ہيں، اور اللہ سے دعا كرتے ہيں كہ وہ اپنا ذكر و شكر اور اچھى طرح عبادت كرنے ميں معاونت فرمائے.
مسلمان شخص سے مطلوب يہ ہے كہ وہ دنيا و آخرت كى مصلحت اكٹھى اور جمع كرے، نہ تو وہ ان افراد ميں شامل ہو جو دنيا اس دليل سے چھوڑ ديتے ہيں كہ وہ آخرت چاہتے ہيں اور اپنى دنيا خراب كر ليتے ہيں.
اور نہ ہى ان ميں شامل ہو جو آخرت كو چھوڑ كر دنيا كى طرف ہى دوڑ پڑتے ہيں.
بلكہ دنيا سے مقصود يہ ہے كہ اس سے آخرت كا زاد راہ تيار كيا جائے، كيونكہ دنيا دار قرار نہيں، بلكہ يہ تو ايك راستہ ہے جس سے انسان نے گزر كر آخرت كى طرف جانا ہے.
لہذا عقلمند مومن وہى ہے جو اس دار آخرت ميں جانے كى تيارى كرتا ہے، اسى ليے جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عقلمند كے بارہ ميں دريافت كيا گيا كہ:
" لوگوں ميں سب سے عقل و دانش والا شخص كون ہے ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
جو موت كو سب سے زيادہ ياد كرتا ہو، اور اس كى سب سے زيادہ تيارى كرے "
اسے امام طبرانى نے روايت كيا ہے، اور علامہ منذرى نے الترغيب و الترھيب ( 4 / 197 ) اور الھيثمى نے مجمع الزوائد ( 10 / 312 ) ميں حسن قرار ديا ہے.
اور الاحياء كى احاديث كى تخريج ميں علامہ عراقى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اس كى سند جيد ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے الترغيب ( 1964 ) ميں ضعيف كہا ہے.
ديكھيں: الاحياء ( 5 / 194 ).
اس ليے رحلت كے دن يعنى موت كے ليے تيارى كرنا ضرورى ہے، كيونكہ يہ تو ايك عارضى ٹھكانہ ہے، اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ ہميں اپنى رحمت ميں جمع كرے.
اس ليے مسلمان شخص كو چاہيے كہ وہ دنيا و آخرت دونوں كے عمل جمع كرے، كيونكہ انسان كو رہائش كى ضرورت ہے، اور مال كى بھى اور لباس كى بھى، اور اسى طرح كھانے پينے كى بھى تا كہ وہ زندہ رہے، اور اسے صحيح ايمان اور عقيدہ كى بھى ضرورت ہے، اور نماز روزہ كى بھى، اور اللہ كا ذكر كرنے كى بھى، اور قرآن مجيد كى تلاوت كرنے كى بھى اور اسى طرح لوگوں كے ساتھ حسن سلوك كرنے كى بھى..... تا كہ وہ اپنے دل كو زندہ ركھ سكے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ اے ايمان والو! اللہ تعالى اور اس كے رسول كى بات مانو جب وہ تمہيں اس كى طرف بلائيں جو تمہيں زندہ ركھنے كا باعث ہے }الانفال ( 24 ).
لہذا مسلمان رمضان اور رمضان كے علاوہ قرآن مجيد كى تلاوت كرنے كا محتاج ہے، اسے چاہيے كہ وہ روزانہ قرآن مجيد كى كچھ تلاوت كيا كرے، تا كہ زيادہ سے زيادہ چاليس يوم ميں قرآن مجيد ختم كر لے.
ليكن رمضان المبارك ميں تو اس سے بھى زيادہ مطلوب ہے كيونكہ يہ افضل مہينہ اور اطاعت اور قرآن مجيد كى تلاوت كا موسم ہے.
فرمان بارى تعالى ہے:
{ رمضان وہ مہينہ ہے جس ميں ہم نے قرآن مجيد نازل فرمايا }البقرۃ ( 185 ).
اس ليے آپ اپنے پورے دن ميں سے ايك گھنٹہ قرآن مجيد كى تلاوت كے ليے نكال سكتے ہيں جس ميں دو پاروں سے زيادہ قرآن مجيد كى تلاوت ہو سكتى ہے، اس طرح آپ ماہ رمضان ميں دو يا تين بار ختم كر سكتے ہيں.
اس طرح آپ مواصلات ميں جو وقت گزارتے ہيں اس سے بھى مستفيد ہو سكتے ہيں، قرآن مجيد آپ كے ساتھ ہونا چاہيے اس طرح آپ اس قليل سے وقت ميں كئى بار قرآن مجيد ختم كر سكتے ہيں، يا پھر ملازمت ميں آپ اپنے مالك سے يہ طے كر سكتے ہيں كہ وہ آپ كى ڈيوٹى ميں كچھ كمى كر دے چاہے اس سے وہ تنخواہ كم كر لے، اللہ تعالى آپ كواس كا نعم البدل عطا فرمائيگا.
اور يہ بھى ممكن ہے كہ آپ آخرى عشرہ كى چھٹياں حاصل كر ليں، يا دس نہيں كم چھٹياں لے ليں، بہر حال آپ اس ماہ مبارك سے فائدہ حاصل كريں، جتنى استطاعت و طاقت ہے اس كے مطابق عمل كريں، اور پھر فرصت موجود ہے، اور دن باقى ہيں اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ اطاعت كى توفيق دے.
اور اگر ڈيوٹى ميں كمى نہيں ہو سكتى يا پھر آپ چھٹى نہيں لے سكتے تو آپ بقدر استطاعت وقت سے فائدہ اٹھائيں جب اللہ تعالى جان لےگا كہ آپ قرآن مجيد كى تلاوت كى حرص ركھتے ہيں اگر كام نہ ہوتا تو ضرور كرتے، تو ان شاء اللہ اللہ تعالى آپ كو ضرور ثواب سے نوازےگا، جس قدر آپ كى نيت ہو گى اسى قدر ثواب بھى ملےگا.
اللہ سبحانہ و تعالى آپ كو ايسے عمل كرنے كى توفيق دے جنہيں وہ پسند كرتا ہے اور جن سے راضى ہوتا ہے.
واللہ اعلم .
blogger

فوت شدہ پر رمضان ميں دن كے وقت جماع كا كفارہ ہونے كى صورت ميں اولاد كيا كرے ؟

ميرے والد صاحب فوت ہو چكے ہيں اللہ ان پر ر حم كرے اور ان كا مال بھى ورثاء ميں تقسيم ہو چكا ہے، ميرى والدہ نے مجھے بتايا كہ آپ كے والد نے پچيس تيس برس قبل ميرے ساتھ رمضان المبارك ميں دن كے وقت ہم بسترى كر لى تھى، اور والدہ اس پر موافق نہيں تھى، والدہ نے مجھے يہ اس وقت بتايا جب وہ آپريشن كے بعد ہاسپٹل سے باہر آ رہى تھيں.
انہوں نے مجھے بتايا كہ ميں نے آپ كے والد كو كہا تھا كہ ايسا كرنا جائز نہيں، اسے چاہيے كہ وہ اس كے متعلق دريافت كرے، تو آپ كے والد نے كہا كہ اس نے توبہ كر لى ہے اور اللہ غفور رحيم ہے.
والدہ كہتى ہيں كہ شرم و حياء كى بنا پر انہوں نے نہ تو سوال دريافت كيا اور نہ ہى ہميں بتايا، والدہ اس كے كفارہ ميں دو ماہ كے روزے ركھنا چاہتى ہے ميں نے انہيں بتايا كہ اس واقعہ ميں ان كا كوئى قصور اور گناہ نہيں اس ليے آپ پر كچھ لازم نہيں آتا، اس كے علاوہ يہ بھى ہے كہ والدہ كى صحت بھى ايسا كرنے كى اجازت نہيں ديتى، لہذا آپ بتائيں كہ ہمارى والدہ پر كيا لازم آتا ہے، اور ہمارے فوت شدہ والد كے متعلق اولاد ہونے كے ناطے ہم پر كيا لازم آتا ہے ؟
الحمد للہ:
اول:
اگر تو آپ كى والدہ كو رمضان المبارك ميں دن كے وقت جماع پر مجبور كيا گيا اور خاوند نے اسے ہم بسترى پر مجبور كيا تو آپ كى والدہ پر كفارہ نہيں ہے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" بلاشبہ اللہ سبحانہ و تعالى نے ميرى امت سے خطا و بھول چوك اور جس پر انہيں مجبور كيا گيا ہو معاف كر ديا ہے "
سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2043 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابن ماجہ ميں اس حديث كو صحيح قرار ديا ہے.
ليكن اگر آپ كى والدہ اس پر راضى تھى تو اس پر بھى روزے كى قضاء اور كفارہ ہے.
رمضان المبارك ميں جماع كرنے والے شخص كے بارہ ميں مستقل فتوى كميٹى كے علماء كا كہنا ہے:
" اس پر ايك غلام آزاد كرنا واجب ہے، اگر اس كى استطاعت نہيں تو پھر وہ مسلسل دو ماہ كے روزے ركھے، اور اگر اس كى بھى استطاعت نہيں ركھتا تو ساٹھ مسكينوں كو كھانا دے، ہر مسكين كو ايك مد گندم دے، اور اس كو اس روزے كى بھى قضاء كرنا ہو گى.
ليكن عورت نے اگر تو يہ كام راضى و خوشى كيا تو اس كا حكم بھى مرد والا ہے، اور اگر عورت كو ايسا كرنے پر مجبور كيا گيا ہے تو اس پر صرف روزے كى قضاء ہو گى " انتہى.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 10 / 302 ).
اور جب اس پر كفارہ واجب ہو اور آپ يہ كہہ رہے ہيں كہ وہ روزے ركھنے كى استطاعت نہيں ركھتى تو اس كو چاہيے كہ وہ ساٹھ مسكينوں كو كھانا كھلا دے.
مزيد آپ سوال نمبر ( 1672 ) كے جواب كا مطالعہ كريں اس ميں دن كے وقت رمضان ميں ہم بسترى كرنے كا كفارہ بيان كيا گيا ہے.
دوم:
اور آپ كے والد كے بارہ ميں يہ ہے كہ اس پر مسلسل دو ماہ كے روزے ركھنا واجب تھے، اور جس دن ميں اس نے ہم بسترى كى اس روزہ كى قضاء كرنا تھى، اور جبكہ وہ فوت ہو چكا ہے اور ايسا نہيں كيا اس ليے يا تو اس كى جانب سے كوئى روزے ركھے اور مسلسل دو ماہ كے روزے ركھے كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جو فوت ہو جائے اور اس كے ذمہ روزے ہوں تو اس كى جانب سے اس كا ولى روزے ركھے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1147 ).
اور يہ دو ماہ كے روزے ايك سے زيادہ اشخاص ميں تقسيم كرنا جائز نہيں، بلكہ صرف ايك ہى شخص مسلسل دو ماہ كے روزے ركھے تا كہ يہ صادق آئے كہ اس نے دو ماہ كے مسلسل روزے ركھے ہيں.
يا پھر اس كى جانب سے ہر دن ايك مسكين كو كھانا كھلا دو.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اگر ميت كے ذمہ دو ماہ كے مسلسل روزے ركھنا واجب ہوں، يا تو اس كے ورثاء ميں سے كوئى ايك شخص وہ روزے ركھے، يا پھر ہر ايك دن كے بدلے ايك مسكين كو كھانا كھلا دے " انتہى
ديكھيں: الشرح الممتع ( 6 / 453 ).
اور شيخ رحمہ اللہ كا يہ بھى كہنا ہے:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ اگر كوئى شخص فوت ہو جائے اور اس كے ذمہ رمضان كے فرضى روزے يا نذر يا كفارہ كے روزے ہوں تو اس كا ولى اس كى جانب سے جب چاہے روزے ركھے " انتہى
ديكھيں: فتاوى نور على الدرب ( 199 / 20 ).
اور شيخ سعدى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جس فوت شدہ شخص كے ذمہ رمضان المبارك كے روزے ہوں اور وہ تندرست ہو جانے كے باوجود روزے نہ ركھے تو اس كى جانب سے ہر روزے كے بدلے ايك مسكين كو كھانا كھلانا واجب ہے جتنے روزے ہوں اتنے ايام كھانا كھلايا جائے.
اور شيخ تقى الدين ابن تيميہ كے ہاں يہ ہے كہ: اگر اس كى جانب سے روزے ركھے جائيں تو كفائت كر جائينگے، اور يہ قوى الماخذ ہے " انتہى
ديكھيں: ارشاد اولى البصائر و الالباب ( 79 ).
اور يہ كھانا كھلانا تركہ ميں سے واجب ہے، اور اگر كوئى شخص كھلا دے اور اپنے مال سے ادائيگى كر دے تو اس ميں كوئى حرج نہيں.
واللہ اعلم .

blogger

شعبان كے آخر ميں عمرہ كا احرام باندھ كر رمضان ميں عمرہ كرنے كا اجر رمضان ميں عمرہ كے برابر ہوگا ؟

ايك شخص نے شعبان كے آخرى دن غروب آفتاب سے قبل عمرہ كا احرام باندھا اور مغرب كے بعد رمضان المبارك كا چاند نظر آنے كا اعلان كر ديا گيا، تو كيا اس كا يہ عمرہ رمضان ميں شمار ہوگا يا نہيں ؟ مقصد يہ كہ اس نے احرام كى نيت مغرب سے قبل كى تھى ليكن عمرہ تو رمضان المبارك كى رات ميں ہى كيا ہے تو كيا يہ عمرہ رمضان ميں شمار ہو گا يا نہيں ؟

الحمد للہ:
رمضان المبارك ميں عمرہ كرنے كا اجروثواب بہت زيادہ ہے جو كہ ايك حج كے برابر ہے.
ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك انصارى عورت سے فرمايا:
" تجھے ميرے ساتھ حج كرنے سے كس چيز نے روكا؟
اس نے عرض كيا: ہمارے پاس صرف دو اونٹ تھے، ايك اونٹ پر بچے كے باپ اور بچے نے حج كيا، اور ايك اونٹ ہمارے ليے چھوڑ ديا جس پر ہم پانى لاتے تھے.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: جب رمضان آئے تو تم عمرہ كر لينا، كيونكہ رمضان المبارك ميں عمرہ كرنے كا ثواب ايك حج كے برابر ہے "
اور مسلم شريف كى روايت ميں ہے كہ:
" ميرے ساتھ حج كا ثواب ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1782 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1256 ).
مسلمان شخص كو يہ اجر عظيم حاصل كرنے كے ليے چاہيے كہ وہ رمضان المبارك ميں عمرہ كا احرام باندھ كر عمرہ بھى رمضان المبارك ميں ہى كرے، يہ نہيں كہ وہ شعبان كے آخرى دن احرام باندھے اور عمرہ رمضان ميں كرے، اور نہ ہى يہ كہ وہ رمضان المبارك ميں عمرہ كا احرام باندھے اور عمرہ كى ادائيگى شوال ميں كرے.
ان دونوں صورتوں ميں ہى ادا كردہ عمرہ رمضان المبارك ميں نہيں ہوگا.
پہلى صورت يہ ہے كہ:
عمرہ كا شعبان كے آخرى دن احرام باندھ كر رمضان المبارك كا چاند نظر آنے كے بعد عمرہ كى ادائيگى كرے.
دوسرى صورت:
رمضان كے آخرى دن غروب آفتاب سے قبل عمرہ كا احرام باندھا جائے اور عيد رات ميں عمرہ كى ادئيگى كى جائے.
شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" رمضان المبارك ميں عمرہ ادا كرنے والے كے ليے ضرورى ہے كہ اس كے عمرہ كى ابتدا اور انتہاء دونوں رمضان المبارك ميں ہوں، اس بنا پر ہم ايك اور مثال ديتے ہيں:
اگر كوئى شخص ميقات پر شعبان كے آخرى روز مغرب سے كچھ دير قبل پہنچے اور عمرہ كا احرام باندھے اور پھر غروب آفتاب كے بعد رمضان المبارك شروع ہو جائے تو وہ شخص مكہ پہنچ كر طواف اور سعى كرتا كے بال منڈواتا ہے تو كيا اس نے رمضان ميں عمرہ كيا ہے يا نہيں ؟
جواب:
اس نے رمضان ميں عمرہ نہيں كيا، كيونكہ اس كے عمرہ كى ابتدا رمضان المبارك شروع ہونے سے قبل ہوئى ہے.
تيسرى مثال:
ايك شخص نے رمضان المبارك كے آخرى دن غروب آفتاب سے قبل احرام باندھا اور عيد رات ميں عمرہ كى ادئيگى كى تو كيا اس كے بارہ ميں كہا جائيگا كہ اس نے رمضان المبارك ميں عمرہ كيا ؟
جواب:
نہيں اس نے عمرہ رمضان ميں نہيں كيا؛ كيونكہ اس نے عمرہ كا كچھ حصہ رمضان المبارك كے بعد كيا ہے، رمضان ميں عمرہ يہ ہے كہ اس كى ابتدا بھى رمضان ميں ہو اور انتہا بھى رمضان المبارك ميں ہو " انتہى
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 21 / 352 – 353 ).
واللہ اعلم .
blogger

نماز توپڑھتا ہے لیکن رمضان المبارک کےروزے نہیں رکھتاتوکیا وہ کفرکا مرتکب ہورہا ہے ؟

کیا روزے ترک کرنے والا کافر ہے اگرچہ وہ نماز کی پابندی بھی کرتا ہواور بغیر کسی عذر اورمرض کے روزے نہ رکھے ؟

الحمد للہ 
جوبھی روزے کے وجوب کا انکار کرتے ہوئے روزے نہ رکھے وہ بالاجماع کافر ہے ، اورجوبھی سستی اورکوتاہی کی وجہ سے روزہ نہ رکھے توبعض اہل علم اسے کافر قرار دیتے ہیں ، لیکن صحیح یہی ہے کہ وہ کافر تو نہیں لیکن اسلام کا ایک رکن ترک کرنے کی وجہ سے وہ خطرے میں ہے کیونکہ اس نے ایک فرض ترک کیا ہے جس کی بنا پر وہ سزا کا مستحق ہے اورحکمران کی جانب سے اسے سزاملنی چاہیے تا کہ وہ اللہ تعالی کے ہاں توبہ کرتے ہوئے اس رکن پر عمل پیرا ہو ۔
واللہ تعالی اعلم ۔ .

دیکھیں : فتاوی اللجنۃ ( 10 / 143 ) ۔

blogger

کفارہ ادا کرنے کا طریقہ

رمضان المبارک میں روزہ نہ چھوڑنے والے کا فدیہ وکفارہ ہردن دینا ہوگا یا کہ رمضان االمبارک گزرنے کے بعد ایک بار ہی سب ایام کا ادا کرسکتا ہے ؟

الحمد للہ 
جوکوئي رمضان المبارک کے روزے کسی دائمی عذر کی بنا پر نہيں رکھتا یعنی وہ عذر ختم ہونے کی امید نہیں ہے مثلا بوڑھا ہونا وغیرہ ، تواس حالت میں اسے ہر دن کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہوگا ، اوراسے اس میں اختیار حاصل ہے چاہے تو وہ روزانہ کھلاتا جائے یا پھر رمضان کے ختم ہونے کا انتظار کرے اوراس کے بعد ایام کی تعداد کے مطابق مساکین کو کھانا کھلادے ۔
شیخ ابن عثيمین رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :
اوراس کا وقت – یعنی کھانا کھلانے کا وقت – اس کے اختیار کے مطابق ہے چاہے تو وہ ہر روز ساتھ ساتھ ہی فدیہ ادا کرتا جائے ، اوراگر چاہے تو اسے مہینہ کے آخر تک مؤخر کرسکتا ہے کیونکہ انس رضي اللہ تعالی نے بھی ایسے ہی کیا تھا ۔ ا ھـ دیکھیں شرح الممتع ( 6 / 335 ) ۔
واللہ اعلم .

blogger