منگل

امام کا اپنے ساتھیوں کی علمی آزمائش کے لیے سوال کرنا۔

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: درختوں میں سے ایک درخت ایسا ہے کہ اس کا پت جھڑ نہیں ہوتا اور وہ مسلمان کے مشابہ ہے، تو تم مجھے بتاؤ کہ وہ کون سا درخت ہے؟ تو لوگ جنگلی درختوں (کے خیال) میں پڑ گئے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں میرے دل میں آیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے مگر میں (کہتے ہوئے) شرما گیا، بالآخر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ ہی ہمیں بتائیے کہ وہ کون سا درخت ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ کھجور کا درخت ہے۔
صحیح بخاری
حدیث نمبر: 56
blogger

جو شخص علم (کو بیان کرنے) میں اپنی آواز بلند کرے۔

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک سفر میں جو ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت میں کیا تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے پیچھے رہ گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے اس حال میں ملے کہ نماز میں ہم نے دیر کر دی تھی اور ہم وضو کر رہے تھے تو (جلدی کی وجہ سے) ہم اپنے پیروں پر پانی لگانے لگے (کیونکہ دھونے میں دیر ہوتی) پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بلند آواز سے دو مرتبہ یا تین مرتبہ فرمایا: ایڑیوں کو آگ کے (عذاب) سے خرابی (ہونے والی) ہے (یعنی خشک رہنے کی صورت میں)۔
صحیح بخاری
حدیث نمبر: 55
blogger

(محض) شک سے وضو نہ کرے تاوقتیکہ (وضو ٹوٹنے کا) یقین نہ ہو جائے۔

سیدنا عبداللہ بن زید الانصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک ایسے شخص کی حالت بیان کی گئی جس کو خیال بندھ جاتا ہے کہ نماز میں وہ کسی چیز (یعنی ہوا) کو (نکلتے ہوئے) محسوس کر رہا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ (نماز سے) لوٹے نہیں یا پھرے نہیں یہاں تک کہ (خروج ریح کی) آواز سن لے یا بو پائے۔
صحیح بخاری
حدیث نمبر: 112
blogger

باب: وضو کی فضیلت (کا بیان)۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: میری امت کے لوگ قیامت کے دن بلائے جائیں گے، درانحآلیکہ وضو کے نشانات کے سبب ان کے بعض اعضاء مثلاً ہاتھ پاؤں وغیرہ وضو کرنے کے سبب چمک رہے ہوں گے۔ پس تم میں سے جو کوئی چمک و سفیدی بڑھانا چاہے تو بڑھا لے۔
صحیح بخاری
حدیث نمبر: 111
blogger

: کوئی نماز طہارت (وضو) کے بغیر قبول نہیں ہوتی۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص حدث کرے تو اس کی نماز قبول نہیں ہوتی یہاں تک کہ وہ وضو کر لے۔ حضرموت (شہر) کے ایک شخص نے پوچھا کہ اے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ! حدث کیا چیز ہے؟ انھوں نے جواب دیا بےآواز یا باآواز ریح خارج ہونا۔
صحیح بخاری
حدیث نمبر: 110
blogger

باب: (حدیث کا خود) پڑھنا اور (پڑھ کر) محدث کو سنانا۔

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے ایک شخص اونٹ پر (سوار) آیا اور اس نے اپنے اونٹ کو مسجد میں (لا کر) بٹھا کر اس کے پاؤں باندھ دیے پھر اس نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے دریافت کیا تم میں سے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کون ہیں؟ اور (اس وقت) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ رضی اللہ عنہم کے درمیان تکیہ لگائے بیٹھے تھے، تو ہم لوگوں نے کہا یہ مرد صاف رنگ تکیہ لگائے ہوئے (جو بیٹھے ہیں انہی کا نام نامی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے)۔ پھر اس شخص نے آپ سے کہا کہ اے عبدالمطلب کے بیٹے! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کہہ) میں سن رہا ہوں۔ اس نے کہا کہ میں آپ سے (کچھ) پوچھنے والا ہوں اور (پوچھنے میں) آپ پر سختی کروں گا تو آپ اپنے دل میں میرے اوپر ناخوش نہ ہونا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو تیری سمجھ میں آئے پوچھ لے۔ وہ بولا کہ میں آپ کو آپ کے پروردگار اور آپ سے پہلے لوگوں کے پروردگار کی قسم دے کر پوچھتا ہوں (سچ بتائیے) کہ کیا اللہ نے آپ کو تمام آدمیوں کی طرف (پیغمبر بنا کر) بھیجا ہے؟ آپ نے فرمایا: اللہ کی قسم! ہاں (بیشک مجھے پیغمبر بنا کر بھیجا گیا ہے)۔ پھر اس نے کہا کہ میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں (سچ بتائیے) کیا دن رات میں پانچ نمازوں کے پڑھنے کا اللہ نے آپ کو حکم دیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم! ہاں۔ پھر اس نے کہا کہ میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں (سچ بتائیے) کیا اس مہینے (یعنی رمضان) کے روزے رکھنے کا اللہ نے آپ کو حکم دیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم! ہاں۔ پھر اس نے کہا کہ میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں (سچ بتائیے) کیا اللہ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ یہ صدقہ ہمارے مالداروں سے لیں اور اسے ہمارے مستحقین پر تقسیم کریں؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم! ہاں۔ اس کے بعد وہ شخص کہنے لگا کہ میں اس (شریعت) پر ایمان لایا، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم لائے ہیں اور میں اپنی قوم کے ان لوگوں کا جو میرے پیچھے ہیں، بھیجا ہوا (نمائندہ) ہوں اور میں ضمام بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ ہوں (قبیلہ) بنی سعد بن بکر سے تعلق رکھتا ہوں۔
 صحیح بخاری
حدیث نمبر: 57
blogger

اتوار

جمعہ کا بیان

صحیح بخاری  حدیث نمبر :  511
سیدنا معاویہ بن سفیان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ منبر پر بیٹھے ہوئے تھے کہ مؤذن نے اذان کہی۔ تو جب اس نے کہا (اﷲاکبر اﷲاکبر) معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی کہا (اﷲاکبر اﷲاکبر) پھر مؤذن نے کہا ((اشھد ان لا الہٰ الا اللہ)) تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا ((وانا)) مؤذن نے کہا ((اشھد ان محمد رسول اللہ)) تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا ((وانا)) پھر اذان ختم ہو چکی تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے لوگو! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی مقام (یعنی منبر) پر سنا کہ جب مؤذن نے اذان دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہی فرماتے جاتے تھے جو تم نے میری گفتگو سنی۔



صحیح بخاری  حدیث نمبر : 512
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کی حدیث منبر کے بارے میں پہلے گزر چکی ہے (دیکھئیے کتاب: نماز کا بیان۔۔۔ باب:۔ چھتوں پر، منبر پر اور لکڑیوں پر نماز پڑھنا) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (منبر) کے اوپر نماز پڑھی اور پھر الٹے پاؤں واپس اترے اس روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ پھر جب فارغ ہوئے تو لوگوں کی طرف منہ کر کے فرمایا: اے لوگو! میں نے یہ اسی لیے کیا تاکہ تم میری اقتداء کرو اور میرا (طریقہ) نماز سیکھ لو۔


صحیح بخاری حدیث نمبر : 514
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر خطبہ پڑھتے تھے، اس کے بعد بیٹھ جاتے تھے، پھر کھڑے ہو جاتے تھے جیسا کہ تم اب کرتے ہو۔
 
blogger

ہفتہ

آیات قرآنیہ کے اخیر میں اللہ سبحانہ وتعالی کے بہت سے اسماہ ہیں

مجھے اللہ تعالی کے ننانوے ( 99 ) اسماء میں سے صرف ابھی تک ( 33 ) اسماء کا علم ہے اور باقی کا مجھے علم نہیں باقی اسماء کا کہاں سے ملنے کا امکان ہے – انٹرنیٹ پر- اور یاپھر ہو سکتا ہے کہ آپ کو ان کا علم ہو ؟
blogger

اللہ تعالی جنت پر ہے

کیا اللہ تعالی جنت کے اوپر یا اس کے اندر موجود ہے ؟
اور کیا یہ اعتقاد رکھنا کہ اللہ تعالی سارے جہان اور کائنات سے بڑا ہے یہ عقیدے کا حصہ ہے؟
blogger

دوران وضوء نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے واسطہ سے دعا كرنا

مجھے ايك عادت ہے پتہ نہيں يہ عادت اچھى ہے يا برى مثلا ميں وضوء كرتے ہوئے جب اپنا پاؤں دھونے لگتا ہوں تو نبى صلى اللہ عليہ وسلم كا واسطہ دے كر اللہ تعالى سے اپنے قدم كو صراط مستقيم پر ثابت رہنے كى دعا كرتا ہوں، اور اسى طرح ميں نماز ميں بھى يہ دعا كرتا ہوں مثلا: رب اغفر لى و رحمنى و سامحنى بجاہ نبيك عليہ الصلاۃ و السلام " كيا يہ دعا جائز ہے يا نہيں ؟ يہ علم ميں رہے كہ ميں اس طرح دعا كرنے كى عادت بنا چكا ہوں، اور ميرا اعتقاد ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى سے جو بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا واسطہ دے كر دعا كرتا ہے اللہ اس كى دعا رد نہيں كرتا، كيا يہ صحيح ہے-

الحمد للہ:
بندہ كے ليے اللہ سبحانہ و تعالى سے صراط مستقيم پر ثابت قدم رہنے كى دعا كرنے ميں كوئى حرج نہيں، اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ ہم سب كو ثابت قدمى عطا فرمائے.
ليكن آپ جو ثابت قدمى كى دعا كرتے ہيں اس ميں دو طرح سے غلطى پائى جاتى ہے:
پہلى غلطى:
وضوء كرتے وقت پاؤں دھوتے ہوئے يہ دعا كرنے كى عادت بنانا.
ہمارے ـ سائل ـ بھائى آپ كو علم ہونا چاہيے كہ ضوء ايك عبادت ہے اور مسلمان شخص كے ليے وضوء كے طريقہ ميں تبديلى كرنا يا اس ميں كسى قسم كى زيادتى يا كمى كرنا جائز نہيں، بلكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى مكمل اتباع و پيروى اسى ميں ہے كہ جس طرح آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے وضوء كيا اسى طرح ہم بھى كريں، اور اس ميں كسى بھى قسم كى كمى يا زيادتى نہ كريں.
ابن تيميہ رحمہ اللہ كا كہنا ہے:
" كسى شخص كے ليے بھى جائز نہيں كہ لوگوں كے ليے كوئى غير مسنون دعا يا وظيفہ اور ذكر مسنون قرار دے، اور اسے عبادت مؤكدہ بنا ڈالے اور لوگ اس كى بالكل اسى طرح پابندى كرنے لگيں جس طرح وہ نماز پنجگانہ كى پابندى كرتے ہيں، بلكہ ايسا كرنا دين ميں بدعت كى ايجاد ہے جس كى اللہ نے اجازت نہيں دى " انتہى
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 22 / 510 ).
اس ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا وضوء كرتے ہوئے اعضاء كو دھونے ميں يہ طريقہ نہيں تھا جس طرح آپ كا ہے، اس ميں ايك حديث وارد ہے ليكن يہ حديث نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے صحيح ثابت نہيں.
حافظ ابن صلاح رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اس ميں كوئى حديث صحيح نہيں " انتہى
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے التلخيص الخبير ( 1 / 297 ) ميں اسى طرح نقل كيا ہے.
اور ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" وضوء كرتے ہوئے ہر عضو كو دھوتے وقت دعا والى حديث موضوع ہے " انتہى
ديكھيں: المنار المنيف ( 45 ).
اور امام نووى رحمہ اللہ وضوء كے اعضاء كى دعا كے متعلق كہتے ہيں:
" اعضاء دھوتے وقت كى دعا كى كوئى دليل اور اصل نہيں "
ديكھيں: الفتوحات الربانيۃ ( 2 / 27 - 29 ).
اور الشيخ محمد بن ابراہيم رحمہ اللہ كا فتوى ہے:
" بعض لوگ خيال كرتے ہيں كہ وضوء ميں ہر عضو دھوتے ہوئے كوئى مخصوص دعا ہے، اور اس سلسلہ ميں احاديث بھى روايت كى جاتى ہيں، ليكن ان احاديث ميں سے كوئى بھى صحيح نہيں، بلكہ سب باطل ہيں " انتہى
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ محمد بن ابراہيم ( 2 / 49 ).
اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ كا كہنا ہے:
" ان سب كى كوئى اصل نہيں، اور نہ ہى اس ميں كوئى حديث نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے محفوظ ملتى ہے، اس ليے وضوء كے اعضاء دھوتے وقت يہ سب دعائيں مستحب نہيں ہيں، بلكہ وضوء ميں دو چيزيں مستحب ہيں:
پہلى: وضوء شروع كرتے وقت بسم اللہ پڑھنا.
دوسرى: اور وضوء كرنے كے بعد كلمہ شہادت پڑھنا، وضوء ميں يہى مشروع ہے " انتہى
ديكھيں: درس نمبر ( 13 ) كيسٹ نمبر ( 2 ).
اور يہ نہيں كہا جا سكتا كہ فضائل اعمال ميں ضعيف حديث پر عمل كيا جا سكتا ہے، كيونكہ يہ قاعدہ اور اصول متفق عليہ نہيں، بلكہ اس ميں اختلاف پايا جاتا ہے، پھر ضعيف حديث پر عمل كرنے كے ليے شرط يہ ہے كہ اس حديث ميں شديد قسم كا ضعف نہ پايا جاتا ہو، اور يہاں يہ شرط مفقود ہے جيسا كہ ابن علان وغيرہ نے تحقيق كے ساتھ بيان كيا ہے.
ديكھيں: الفتوحات الربانيۃ ( 2 / 29 ).
اور اس مسئلہ ميں امام سيوطى رحمہ اللہ نے " الاغضاء عن الدعاء الاعضاء " كے نام سے ايك رسالہ لكھا ہے جس ميں اس سلسلہ ميں مروى روايت كے شديد ضعف كو بيان كيا ہے، اور كہا ہے كہ اس حديث ميں عمل كى صلاحيت نہيں چاہے فضائل اعمال ميں ہى كيوں نہ ہو.
مزيد آپ سوال نمبر ( 45730 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
اس ميں دوسرى غلطى يہ ہے كہ: آپ دعا ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا واسطہ ديتے ہيں.
اس ميں كوئى شك و شبہ نہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا مقام و مرتبہ بہت ہے، ليكن اللہ سبحانہ و تعالى نے اس مقام و مرتبہ اور نبى كے واسطے كو دعا كى قبوليت كا وسيلہ نہيں بنايا.
اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بھى ايسا كرنے كے ليے ہمارى راہنمائى نہيں كى ـ حالانكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہر قسم كى خير و بھلائى كى طرف ہمارى راہنمائى كى ہے ـ ليكن انہوں نے اس كے ساتھ اللہ كو وسيلہ دينے كى راہنمائى نہيں فرمائى.
تو اس سے يہ معلوم ہوا كہ يہ دعا مشروع اور جائز نہيں ہے.
اس كى تفصيل سوال نمبر ( 23265 ) كے جواب ميں بيان ہو چكى ہے آپ اس كا مطالعہ كريں.
اس ليے ميرے بھائى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت اور طريقہ كى پيروى و اتباع كى حرص ركھيں، اور اس وضوء ميں نہ تو كسى قسم كى كوئى كمى كريں اور نہ ہى زيادتى، اور دين ميں نئے كام كى ايجاد سے اجتناب كريں، جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے اس فرمان ميں ہميں وصيت فرمائى ہے:
" تمہيں چاہيے كہ تم ميرى اور ميرے خلفاء راشدين كى سنت كو لازم پكڑو، اور اس پر سختى سے عمل كرتے رہو، اور نئے نئے امور و بدعات سے اجتناب كرو، كيونكہ ہر نيا كام بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہى ہے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 4607 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
واللہ اعلم.

الاسلام سوال و جواب

blogger

صالحين كےمقام ومرتبہ كا واسطہ دے كراللہ تعالى سےسوال كرنے كا حكم

كيا فوت شدہ صالح اور نيك لوگوں كےمرتبہ اورمقام كي بنا پر زندہ لوگوں پر اللہ تعالى كرم كرتا ہے كہ جب ہم اللہ تعالى سے كسي صالح اور نيك شخص كي نيكي اور اصلاح اور اس كي عبادت كےواسطےسے كسي مصيبت سے چھٹكارا طلب كريں، حالانكہ ہميں علم ہے كہ فائدہ اللہ تعالي كي جانب سے ہي ہے
 
الحمد للہ :
اس ميں كوئي شك نہيں كہ دعاء شرعي عبادات ميں سےايك عظيم عبادت ہے جس كےساتھ اللہ تعالي كا قرب حاصل كيا جاتا ہے، اور اس ميں بھي كوئي شك نہيں كہ يہ كسي بھي بندے كےلئےجائزنہيں كہ وہ اللہ تعالي كي عبادت اس طريقہ پر كرے جو نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم كي زبان سے مشروع نہيں كيونكہ حديث ميں نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
عائشہ رضي اللہ تعالي عنہا بيان كرتي ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نےفرمايا:
" جس نےبھي ہمارے دين ميں كوئي ايسا كام ايجاد كيا جواس ميں سے نہيں تو وہ كام مردود ہے"
صحيح بخاري حديث نمبر ( 2499 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 3242 ) اور مسلم كي ايك روايت كےالفاظ ہيں:
" جس نےبھي ايسا كوئي عمل كيا جس پرہمارا حكم نہيں تو وہ مردود ہے" صحيح مسلم حديث نمبر ( 3243 ) .
اس سےيہ معلوم ہوا كہ اللہ تعالي كواس كا وسيلہ يا واسطہ دينا جو نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم سےثابت نہيں نہ تو قولي اورفعلي طور پر اور نہ ہي ان صحابہ كرام نےكيا جونيكي اورخير ميں ہم سےزيادہ سبقت لےجانےوالےتھے ايسا كام كرنا بدعت اور برائي ہے، وہ بندہ جو اللہ تعالي سےمحبت كرتا اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كي اتباع وپيروي كرتا ہے وہ اس سےاجتناب كرے اورايسےطريقہ سےعبادت نہ كرے جو شرعا ثابت نہيں.
لھذا جب ہم سائل نےجو كچھ ذكر كيا ہے اسےديكھتےہيں، كہ صالح اور نيك لوگوں كےمقام ومرتبہ اوران كي عبادت اورمقام كا اللہ تعالي كو وسيلہ دينا، توہم اس كام كو ايك نئي ايجاد پاتےہيں جو نبي صلى اللہ عليہ وسلم سےثابت نہيں، اور نہ ہي صحابہ كرام رضي اللہ تعالي عنہم سےثابت ہے كہ انہوں نے كسي ايك دن بھي اللہ تعالي كو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كےمقام ومرتبہ اوران كي شان كا وسيلہ ديا ہو نہ تو نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم كي زندگي ميں نہ ہي وفات كےبعد، بلكہ نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم كي زندگي ميں وہ نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم كي دعا سےوسيلہ پكڑتےكہ نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم ان كےلئےاللہ تعالي سےدعا فرمايا كرتےتھے، اورجب نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم فوت ہوگئے توانہوں نے زندہ اور صالح افراد كي دعا كا وسيلہ بنايا اور نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم كي شان اور مرتبہ كےوسيلہ كو ترك كرديا، جو كہ واضح طور پر اس بات كي دليل ہے كہ اگر نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم كي ذات يا ان كےمقام ومرتبہ كا وسيلہ خيرو بھلائي اور مشروع ہوتا تو صحابہ كرام ہم سےسبقت لے جاتےہوئےايسا ضرور كرتے.
اور كون ايسا شخص ہے جويہ خيال كرےكہ وہ عمر بن خطاب رضي اللہ تعالي عنہ سےخيروبھلائي ميں زيادہ حرص ركھتا ہے؟ ديكھيں عمربن خطاب رضي اللہ تعالي عنہ نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم كےمقام مرتبہ اوران كي شان كا وسيلہ دينے سے اعراض كررہے ہيں بلكہ انہوں نے نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم كےچچا كي دعا كا وسيلہ بنايا، اور صحابہ كرام بغير كسي مخالف اور انكار كے اس كي گواہي ديتےہيں جيسا كہ صحيح بخاري ميں ہے:
انس بن مالك رضي اللہ تعالى عنہ بيان كرتےہيں كہ :
" جب قحط پڑتا تو عمر بن خطاب رضي اللہ تعالي عنہ عباس بن عبدالمطلب رضي اللہ تعالي عنہ سےدعا كرواتے اور يہ كہتے: اے اللہ ہم تيري طرف اپنےنبي كا وسيلہ بنايا كرتےتھےتو ہميں تو بارش عطا كرتا تھا، اور اب ہم اپنےنبي كےچچا كا وسيلہ بناتےہيں توہميں بارش عطا فرما، وہ كہتےہيں كہ بارش ہوجايا كرتي تھي. صحيح بخاري حديث نمبر ( 954 ).
نبي صلى اللہ عليہ وسلم يا عباس رضي اللہ تعالي عنہ كو وسيلہ بنانے كا معني يہ ہے كہ ان كي دعا كا وسيلہ بناتےتھےجيسا كہ حديث كےبعض طرق ميں اس كوبيان بھي كيا گيا ہے:
انس رضي اللہ تعالي عنہ بيان كرتےہيں كہ جب نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم كےدور ميں بارش نہ ہوتي اور قحط پڑجاتا تو صحابہ كرام ان سے بارش دعا طلب كرتےتوانہيں بارش مل جاتي، اور جب عمر رضي اللہ تعالي عنہ كي امارت ميں ايسا ہوا" اس كےبعد باقي حديث ذكر كي، اسےاسماعيلي نے صحيح پر اپني مستخرج ميں بيان كيا ہے.
اور مصنف عبدالرزاق ميں ابن عباس رضي اللہ تعالي عنہما كي حديث ميں ہےكہ: عمر رضي اللہ رضي اللہ تعالي نےعيدگاہ ميں بارش كي دعا كي اور عباس رضي اللہ تعالي عنہ كو كہنےلگے: اٹھو اور بارش كي دعا كرو، تو عباس رضي اللہ تعالى عنہ كھڑے ہوئے" پھر باقي حديث ذكر كي،اسے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى نے فتح الباري ميں نقل كيا اورخاموشي اختيار كي ہے.
تواس سےواضح ہوا كہ عمر رضي اللہ تعالي عنہ نےجو توسل اور وسيلہ كا قصد كيا تھا تو ايك نيك اور صالح شخص كي دعا تھي جو كہ صحيح اور مشروع ہے، اس كےبہت سےدلائل پائےجاتےہيں اور صحابہ كرام كےحالات سے يہ معلوم ہے كہ جب وہ قحط سالي كا شكار ہوتےاور بارش نہ ہوتي تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے دعا كرنےكا كہتےتو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كےدعا كرنےسےبارش ہوجاتي اس ميں بہت سي احاديث مشہورہيں.
مستقل فتوي كميٹي كےفتاوي ميں ہے كہ:
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے مقام اور مرتبہ يا كسي صحابي يا ان كےعلاوہ كسي اور كا شرف و مقام يا اس كي زندگي كےواسطےاوروسيلہ سےدعا كرنا جائزنہيں، اللہ تعالى نےاسےمشروع نہيں كيا،اس لئےكہ عبادات توقيفي ہيں، بلكہ اللہ تعالى نے اپنےبندوں كےلئے اپنےناموں اور صفات اوراس كي توحيد اور اس پرايمان اور اعمال صالحہ كا وسيلہ مشروع اور جائز كيا ہے، نہ كہ كسي كي زندگي اوراس كےمقام ومرتبہ كاوسيلہ، لھذا مكلفين پر واجب ہے كہ وہ اس پر اكتفا كريں جواللہ تعالى نےان كےلئےمشروع كيا ہے، تواس سےيہ پتہ چلتا ہے كہ كسي كي زندگي يا مقام مرتبہ وغيرہ كاوسيلہ دين ميں نئي ايجاد كردہ اور بدعت ہے. اھ
ديكھيں: فتاوي اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 1/ 153)
اورشيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى كہتےہيں:
" كسى ايك كےلئے بھى يہ جائزنہيں كہ وہ اپنے سے پہلے سلف صالحين كا اللہ تعالى كوواسطہ دے، كيونكہ ان كا نيك اورصالح ہونا اس كےعمل ميں سےنہيں كہ اسےاس كا بدلہ ديا جائے، مثلا غار والے تين اشخاص نے اپنے سے پہلے نيك وصالح لوگوں كا وسيلہ نہيں ديا بلكہ انہوں نےاللہ تعالى كےسامنے اپنے اعمال صالحہ كو وسيلہ بنايا تھا اھ.
اللہ تعالى سےہمارى دعا ہے كہ وہ ہميں موت تك اپنےدين اور شريعت پر ثابت قدم ركھےآمين.
واللہ تعالى اعلم.
ديكھيں: التوسل وانواعہ و احكامہ تاليف: الشيخ البانى رحمہ اللہ تعالى صفحہ ( 55 ) اور فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 1 / 153 ) اور التوصل الى حقيقۃ التوسل تاليف الشيخ محمد نسيب الرفاعى ( 18 ) .
واللہ اعلم .

الاسلام سوال وجواب
blogger

بتوں كوتوڑنا واجب ہے

كيا اسلام ميں بت شكني واجب ہے، اگرچہ وہ انساني اورترقي كےآثار ہي ہوں؟ اور جب صحابہ كرام نے ملكوں كو فتح كيا توانہوں نےوہاں بت اور مجسمے ديكھنے كے باوجود كيوں نہ توڑے ؟

الحمد للہ :
شرعي دلائل سے بتوں كےاندام كا ثبوت ملتا ہے جس ميں چند ايك دلائل كا ذيل ميں ذكر كيا جاتا ہے:
1 ـ امام مسلم رحمہ اللہ تعالي نے ابوالھياج اسدى رحمہ اللہ تعالي سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتےہيں كہ مجھے على بن ابى طالب رضي اللہ تعالى عنہ نے كہا:
كيا ميں تجھےاس كام كےلئےنہ بھيجوں جس كےلئے مجھے رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نےبھيجا تھا: كہ" تم جو مجسمہ بھي ديكھواسے مٹا ڈالو، اور جو قبر بھي اونچي ديكھو اسے ( زمين كے) برابر كردو. صحيح مسلم ( 969 ).
2 - امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نےہي عمرو بن عبسہ رضي اللہ تعالى عنہ سےبيان كيا ہے كہ انہوں نےنبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم سےكہا: اللہ تعالى نے آپ كو كس چيز كےساتھ مبعوث كيا ہے؟ تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
( مجھےصلہ رحمي كرنےاور بت توڑنے، اور اللہ تعالي كي وحدانيت بيان كرنےاوراس كےساتھ كوئي بھي شريك نہ ٹھرائےكي دعوت دينےكےلئےبھيجا گيا ہے ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 832 ) .
اوراگر اللہ تعالي كےعلاوہ ان بتوں كي عبادت كي جاتي ہو تو پھر ان كا توڑنا اورزيادہ متاكد اورضروري ہوجاتا ہے.
3 - امام بخاري اور مسلم رحمہما اللہ تعالي نے جرير بن عبداللہ بجلى رضي اللہ تعالى عنہ سےحديث بيان كي ہے وہ بيان كرتےہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نےمجھے فرمايا:
( اے جرير كيا تم مجھے ذى الخلصہ سے راحت اور آرام نہيں پہنچاتے، ذي الخلصہ حثعم قبيلہ كا ايك گھر تھا جسے يمني كعبہ كہا جاتا تھا، تو وہ بيان كرتےہيں كہ ميں ايك سو پچاس گھڑ سوار لےكر گيا اورميں گھوڑے پر نہيں بيٹھ سكتا تھا توميں نےاس كا نبي صلى اللہ عليہ وسلم سےذكر كيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ميرے سينےميں ہاتھ مارا اور كہنےلگے: اے اللہ اسے گھوڑے پر ثابت كر اوراسے ہدايت كي راہنمائي كرنےوالا اور ہدايت يافتہ بنا دے
وہ بيان كرتےہيں كہ ميں گيا اوراسے آگ سےجلاديا، پھر جرير رضي اللہ تعالى عنہ نے ايك شخص جس كي كنيت ابوارطاۃ تھي كو نبي صلى اللہ عليہ وسلم كو خوشخبري دينے كےلئےروانہ كيا تو وہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كوبتايا كہ ميں آپ كےپاس اس وقت آيا ہوں جب ہم نےاسےايك خارش زدہ اونٹ كي طرح كر كےچھوڑا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نےپانچ بار ان گھوڑوں اورسواروں كےلئےبركت كي دعافرمائي ) صحيح بخاري حديث نمبر ( 3020 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2476 ).
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالي كہتےہيں:
اس حديث ميں ہر اس چيزكو جو انسان كو فتنے ميں ڈالے چاہے وہ انسان ہو يا حيوان يا پھر عمارت يا كوئي جمادات وغيرہ ميں سےاسےختم اور زائل كرنے كي مشروعيت پائي جاتي ہے. اھ .
4 - اور نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے خالد بن وليد رضي اللہ تعالى عنہ كو ايك لشكر دےكر عزى كا بت منہدم كرنےكےلئےروانہ كيا .
5 - اورسعد بن زرارہ رضي اللہ تعالى عنہ كو مجاہدين كي ايك جماعت دےكر مناۃ كا بت گرانےكےلئےروانہ كيا.
6 - اور عمروبن عاص رضي اللہ تعالى عنہ ايك لشكر دےكر سواع كا بت گرانےكي مہم پر روانہ فرمايا، اوريہ سب كچھ فتح مكہ كےبعد كيا.
ديكھيں: البدايۃ والنھايۃ ( 4 / 712 - 776، 5 / 83 ) اور السيرۃ النبويۃ تاليف ڈاكٹر على الصلابي ( 2 / 1186 ) .
امام نووى رحمہ اللہ تعالى مسلم كي شرح ميں تصوير كےمسئلہ ميں كلام كرتےہوئےكہتےہيں:
اور علماء كرام اس پر مجتع ہيں كہ جس كا سايہ ہو اس كي تصوير منع ہے اوراس كا بدلنا واجب ہے. اھ
اور تصاوير ميں جس كا سايہ ہوتا ہے وہ مجسم تصاوير جس طرح كہ يہ مجسمے اوربت ہيں .
اور جويہ بات كي جاتي ہے كہ صحابہ كرام رضي اللہ تعالى عنھم نے مفتوحہ علاقوں ميں بت چھوڑ دئے تھے، تو يہ سب وہمي اورگمان كي باتيں ہيں، نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم كےصحابہ كرام كبھي بھي ان بتوں اور مجسموں كو چھوڑنےوالےنہيں تھے، اور خاص كرجب اس دور ميں ان كي عبادت كي جاتي تھي.
اور اگريہ كہا جائےكہ بت اور مجسمےتوبہت پرانےہيں جو كہ فرعونوں اور فنيقيوں وغيرہ كےمجسمےہيں توصحابہ كرام نےانہيں كيسےچھوڑديا؟
اس كا جواب يہ ہے: يہ بت تين وجوہات سےخارج نہيں ہوسكتے:
اول:
يہ بت كسي دور دراز جگہ ميں ہوں جہاں صحابہ كرام پہنچےہي نہيں، صحابہ كرام كا مصر كو فتح كرنےكا مطلب يہ نہيں كہ وہ مصر كےہر علاقے ميں پہنچے تھے.
دوم:
يہ بت ظاہر نہ ہوں، بلكہ فراعنہ وغيرہ كےگھروں ميں ہوں، نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا طريقہ يہ تھا كہ جب ظالموں اور عذاب كردہ علاقوں سے گزرتےتوتيزي سے گزر جاتےبلكہ ان جگہوں ميں داخل ہونے كي ممانعت آئي ہے.
صحيحن ميں حديث ہے كہ : نبي صلى اللہ عليہ وسلم نےفرمايا:
" ان عذاب كردہ لوگوں ( كےعلاقہ ميں نہ جاؤ ليكن روتےہوئے، خدشہ ہے كہ تمہيں بھي وہي نہ پہنچ جائےجوانہيں پہنچا تھا "
نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ اس وقت فرمايا تھا جب ثموديوں كےعلاقہ مدائن صالح ميں اصحاب حجر كےپاس سےگزر رہے تھے.
اور صحيحين ہي كي ايك روايت ميں ہے كہ: " اگر تم رونےوالے نہيں تو پھر اس علاقےميں نہ داخل ہو، اس خدشہ كےپيش نظر كہ كہيں تمہيں بھي وہي نہ پہنچ جائےجو انہيں پہنچا تھا"
اور نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم كےصحابہ كرام كےمتعلق ہمارا گمان ہے كہ اگر انہوں نے كوئي عبادت گاہ يا ان كا كوئي گھر ديكھا ہو تو وہاں داخل ہي نہيں ہوئے، اوراس ميں جو كچھ تھا اسےديكھا تك نہيں.
اہرام اور اس ميں جوكچھ ہےاس كےمتعلق جو اشكال پيدا ہوتا ہےاس بنا پريہ اشكال زائل اور ختم ہوجاتا ہے، اوراس كےساتھ يہ بھي احتمال ہے كہ اس وقت اس كےدروازے اور اندر داخل ہونے كي راستےريت ميں مدفون ہوں اور نظر ہي نہ آتےہوں.
سوم:
آج جو بت ظاہر ہيں ان ميں سےاكثر ريت ميں مدفوں يا پھر يہ پھر يہ حال ہي ميں مليں ہوں، يا كسي دور دراز مقام سےلائےگئےہوں جہاں صحابہ كرام رضي اللہ تعالي عنہ نہ پہنچےہوں.
زركلي سے ان اہراموں اور ابوالہول وغيرہ كےبارہ ميں سوال كيا گيا كہ كيا انہيں مصر ميں داخل ہونے والے صحابہ كرام رضي اللہ تعالي عنہم نے ديكھا تھا؟
توانہوں نےكہا: ان كي اكثريت اور خاص كر ابوالہول ريت ميں مدفون تھا.
ديكھيں: شبہ الجزيرۃ العرب ( 4 / 1188 ) .
پھر يہ بھي ہے كہ اگر فرض كرليا جائےكہ يہ بت ريت ميں دفن نہيں تھے، توپھر اس كا ثبوت ہونا ضروري ہےكہ صحابہ كرام نےانہيں ديكھا تھااور وہ انہيں منہدم كرنےپر قادر تھے.
اور واقع اس بات كا شاہد ہے كہ صحابہ كرام رضي اللہ تعالي عنہ ان ميں سے بعض مجسموں كو منہدم كرنے سےعاجز تھے، اور ان ميں بعض كو مندم كرنے ميں بيس يوم صرف ہوئے، باوجود اس كےكہ صحابہ كرام كےدور ميں يہ آلات اورمشينيں اوربارود اور دسرے وسائل موجود نہيں تھے جنہيں اس كے انہدام ميں استعمال كيا گيا اوربيس يوم صرف ہوئے.
اس كي دليل يہ ہے كہ ابن خلدون نےمقدمہ ميں ذكر كيا ہے كہ:
خليفہ الرشيد نے كسرى كا ايوان مندم كرنےكا عزم كيا اور اس كا كام شروع كرنےكےلئے لوگ تيار كئےاوركلہاڑياں تيار كيں اوراسے آگ سےسرخ كيا اوراس پر سركہ بہايا حتي كہ وہ اس سےعاجز آگيا، اورخليفہ مامون نے اہرام مصر منہدم كرنے كا ارادہ كيا اوراس كي تياري بھي كرلي ليكن وہ ايسا نہ كرسك. ديكھيں: المقدمۃ لابن خلدون صفحہ ( 383 )
اور يہ تعليل پيش كرني كہ يہ مجسمےانساني ورثہ ميں سے ہيں، يہ ايسي كلام ہے جس كي طرف دھيان نہيں ديا جاسكتا، كيونكہ لات اور عزى اور ہبل ومناۃ وغيرہ دوسرے بت قريش اورجزيرہ وغير جوان كي عبادت كرتے تھے ان كا ورثہ تھا.
يہ ہے تو ورثہ ليكن محرم ورثہ ہے جس كا زائل اور ختم كرنا واجب ہے، اور جب اللہ تعالي اور اس كےرسول صلى اللہ عليہ وسلم كا حكم آجائے تومومن آدمي اس كى پيروي اوراتباع كرنے ميں جلدي كرتا ہے، اور اس طرح كي بےہودہ دليلوں سے اللہ تعالي اور اس كےرسول صلى اللہ عليہ وسلم كا حكم رد نہيں كيا جاسكتا.
فرمان باري تعالى ہے:
{ايمان والوں كا قول تو يہ ہے كہ جب انہيں اس لئے بلايا جاتا ہے كہ اللہ تعالى اور اس كا رسول صلى اللہ عليہ وسلم ان ميں فيصلہ كردے تو وہ كہتےہيں ہم نے سنا اوراطاعت كي اور مان ليا يہي لوگ كامياب ہونے والے ہيں}النور ( 51 ).
ہم اللہ تعالى سے دعا كرتےہيں كہ وہ سب مسلمانوں كو ايسےكام كرنےكي توفيق عطا فرمائے جنہيں وہ پسند كرتا اورجن سےراضي ہوتاہے.
واللہ اعلم .


blogger

سب جہانوں كا پروردگار رب العالمين

سب جہانوں كا پروردگار كون ہے ؟
الحمد للہ :
ايك اللہ تعالي ہي رب ، خالق ورازق ، اور سب امور ميں تصرف كرنے والا مالك وبادشاہ ہے، وہي علم والا اور خبر ركھنےوالا ہے، وہ اللہ ہي حيي اور قيوم سميع وبصير سننےوالا اورديكھنےوالا ہے، وہ باريك بان اور خبرگيري كرنےوالا، وہي بہت مہربان اوررحم كرنے كرنےوالے، وہ اللہ بردباروحليم اور بہت بخشنےوالا ہے، وہ غالب اور زبردست ہے، وہ معاف كرنےوالا اور بڑا كرم كرنےوالا ہے، وہ قوت وطاقت والا اور قدرت والا ہے، وہ ہي ابتداء سےپيدا كرنے اور صورتيں بنانےوالا ہے.
ـ آسمان وزمين ميں اسي كي بادشاہي ہے، اس كےہاتھ ميں خيروبھلائي ہے اور وہ ہر چيزپر قادر ہے.
ـ اس كےعلاوہ كوئي اور معبود برحق نہيں، اس كےاچھےاچھے نام اور بلند صفات ہيں فرمان باري تعالي ہے:
{وہي اللہ ہےجس كےعلاوہ كوئي معبود برحق نہيں جو عبادت كےلائق ہو اس كے اچھے اچھے نام ہيں} طہ ( 8 ) .
وہ جو چاہتا ہے كرتا ہے اور جس كا چاہےحكم كرتا ہے فرمان باري تعالي ہے:
{اورآپ كا رب جوچاہتا ہے پيدا كرتا اورجسےچاہتا ہے چن ليتا ہے} القصص ( 68 ) .
وہ مالك الملك اور تمام جہانوں كا مالك ہے، جسےچاہتا عزت ديتا اور جسے چاہتا ذليل كرتا ہے .. فرمان باري تعالي ہے:
{آپ كہہ ديجئے اے اللہ ! اےتمام جہان كےمالك ! تو جسےچاہے بادشاہي دے اورجس سےچاہےسلطنت چھين لے اور تو جسےچاہے عزت جے اور جسے چاہے ذلت دے، تيرے ہي ہاتھ ميں سب بھلائياں ہيں، بےشك تو ہر چيز پرقادر ہے} آل عمران ( 26 ) .
وہي زندہ كرنے اور مارنےوالا ہے، آسمان وزمين ميں كوئي بھي چيزاس مخفي نہيں... فرمان باري تعالي ہے:
{اللہ تعالى ہي زندہ كرتا اور وہي مارتا ہے، اورجوكچھ تم عمل كررہے ہو اسےديكھ رہا ہے} آل عمران ( 156 ) .
وہي اكيلا حاكم اور خالق ہے... ارشاد باري تعالي ہے:
{ياد ركھو اللہ ہي كےلئے خاص ہے خالق ہونا اورحاكم ہونا، بڑي خوبيوں والا ہے اللہ جو تمام عالم كا پروردگار ہے} الاعراف ( 54 ) .
وہي اول ہے اس سےقبل كوئي چيز نہيں.. اور وہي آخر ہے اس كےبعد كوئي چيز نہيں، وہي ظاہر ہے اس كےاوپر كوئي چيز نہيں، وہي باطن ہے اس كےپرے كوئي چيز نہيں ... ارشاد باري تعالي ہے:
{وہي اول ہے اور وہي آخر ہے، وہي ظاہر ہے اوروہي باطن، اوروہي ہر چيز سے باخبر ہے} الحديد ( 3 )
وہ ہرچيز كا خالق اور ہر چيز كوجاننےوالاہے... ارشاد رباني ہے:
{يہ اللہ تعالي تمہارا رب ہے! اس كےعلاوہ كوئي عبادت كےلائق نہيں، وہ ہر چيز كو پيدا كرنےوالا ہے لھذا تم بھي اسي ہي كي عبادت كرو، اور وہ ہرچيز كا كارساز ہے} الانعام ( 102 ) .
وہ باريك بين، عظيم الشان اور ہر چيز كا احاطہ كرنےوالا ہے... فرمان باري تعالي ہے:
{اور اللہ تعالي ہر چيز كو گھيرنےوالا ہے} النساء ( 126 ) .
وہ حيي وقيوم زندہ اور سب كوتھامنےوالاہے.... آسمان وزمين ميں جوكچھ ہے وہ اسي كي ملكيت ہے... اس پر كوئي چيز مخفي نہيں... اور نہ ہي كوئي چيز اسےعاجز كرسكتي ہے... اور نہ ہي كوئي چيز اس كا احاطہ كرسكتي ہے، فرمان رباني ہے:
{اللہ تعالي ہي معبود برحق ہے جس كےسوا كومعبود نہيں، جو زندہ اور سب كو تھامنےوالا ہے، جسےنہ تو اونگھ آئےاور نہ ہي نيند، اس كي ملكيت ميں زمين وآسمان كي تمام چيزيں ہيں، كون ہے جو اس كي اجازت كےبغير اس كے سامنے شفارش كرسكے، وہ جانتا ہےجوان كےسامنےہے اور جوان كےپيچھے ہے، اور وہ اس كےعلم ميں سےكسي چيز كا بھي احاطہ نہيں كرسكتےمگرجتنا وہ چاہے، اس كي كرسي كي وسعت نےزمين وآسمان كو گھير ركھا ہے، اور اللہ تعالي ان كي حفاظت سےنہ تھكتا اور نہ اكتاتا ہے، وہ تو بہت بلند اوربہت بڑا ہے} البقرۃ ( 255 ) .
اس نےہرچيز كوجانا اوراسےشمار كرركھا ہے.. فرمان باري تعالي ہے:
{اور ہم نے ہر چيز كوايك واضح كتاب ميں ضبط كرركھا ہے} يس ( 12 ) .
وہ بڑي سخاوت اور كرم والا ہے، ساري روزي ورزق اسي كي جانب سے ہے... فرمان رباني ہے:
{اور زمين پر چلنےپھرنےوالےجتنےبھي جاندار ہيں ان كي روزياں اللہ تعالي پر ہيں} ھود ( 6 ).
اس كي نعمتيں گني اورشمار نہيں كي جاسكتيں ... فرمان باري تعالي ہے:
{اوراس نےتمہيں وہ سب كچھ عطا كيا ہے جوتم نےاس سےمانگا، اوراگر اللہ تعالي كي نعمتيں شمار كرو توانہيں شمار نہيں كرسكتے} ابراہيم ( 34 ) .
اس كےخزانوں سےآسمان وزمين بھرے ہوئےہيں... رب ذوالجلال كا فرمان ہے:
{آسمان وزمين كےخزانےاللہ ہي كےلئےہيں} المنافقون ( 7 ).
وہ بےنياز اورخوبيوں والا ہے، اپنےبندوں كو عطا كرتا ہےليكن اس كےخزانوں ميں كوئي كمي نہيں ہوتي .... ارشاد باري تعالي ہے:
{اےلوگوں تم اللہ تعالي ہي كےمحتاج ہو اور اللہ تعالي بےنياز اور خوبيوں والا ہے} فاطر ( 15 ) .
وہ معاف كرنےوالا اورگناہوں كوبخشنےوالا ہے، اپنےبندوں پر رحم كرتا اور ان كي برائيوں سے درگزر كرتا ہے... رب ذوالجلال نےفرمايا:
{يقينا اللہ تعالي معاف كرنےوالا اوربخشنےوالا ہے} الحج ( 60 ).
وہ عالم غيب اور ظاہر كي باتوں كا جاننےوالا ہے، اپنےبادشاہي ميں غالب اور تدبير ميں بہت حكمت والا ہے... فرمان باري تعالي ہے:
{وہ پوشيدہ اورظاہركا جاننےوالا ہے، زبردست حكمت والا ہے}التغابن ( 18 ) .
وہ پوشيدہ اورظاہري احوال اورجومخفي ہے اسے بھي جانتا ہے .. فرمان باري تعالي ہے:
{اور وہي ہے معبود برحق آسمانوں ميں بھي اور زمين ميں بھي، وہ تمہارے پوشيدہ احوال كوبھي اورتمہارے ظاہر كوبھي جانتا ہے، اور تم جو كچھ عمل كرتے ہو اس كوبھي جانتا ہے} الانعام ( 3 ) .
وہ باريك بين اورخبردار ہے... فرمان باري تعالي ہے:
{مخلوق كي نگاہيں اس كا ادراك نہيں كرسكتيں، اور وہ ان كي نگاہوں كا پورا ادراك كرتا ہے اور وہي بڑا باريك بين اور باخبر ہے}الانعام ( 103 ) .
وہ اپني ذات ميں واحد ہے اور صفات ميں بھي اور اپنے افعال ميں بھي واحد ہے... فرمان باري تعالي ہے:
{كہہ ديجئے كہ وہ اللہ ايك ہي ہے، اللہ تعالي بےنياز ہے، نہ اس سےكوئي پيدا ہوا اور نہ وہ كسي سے پيدا ہو، اور نہ ہي اس كا كوئي ہمسر ہے} الاخلاص ( 1-4 ) .
وہ اللہ پاك ہے اس كےاچھے اچھے نام اور وہ بلند صفات كا مالك ہے اس كا كوئي شريك نہيں... ارشاد باري تعالي ہے:
{يہي اللہ تعالي تمہارا رب ہے، اسي كےلئے بادشاہت ہے، اس كےسوا كوئي عبادت كےلائق نہيں، پھرتم كہاں بہك رہےہو} الزمر ( 6 ).
جس كي يہ بادشاہي .. اور جس كي يہ صفات ہيں... اور جس كي يہ مخلوق .. اور جس كي يہ نعمتيں ہيں وہي حمد وتعريف اور شكركا مستحق ہے اورخالصتا اسي كي عبادت ہوني چاہئےكسي اوركي نہيں.. فرمان باري تعالي تعالى ہے:
{يقينا تمہارا رب وہ ہےجس نے آسمان وزمين كو چھ دنوں ميں پيدا فرمايا پھر عرش پر مستوى ہوا، وہ ہركام كي تدبير كرتا ہے، اس كي اجازت كےبغير كوئي اس كےپاس كوئي سفارش كرنےوالا نہيں، يہي اللہ تمہارا رب ہےلھذا تم اسي كي عبادت كرو، كيا تم پھر بھي نصيحت نہيں پكڑتے} يونس ( 3 ) .
اس نےپيدا كيا اوربالكل صحيح سالم بنايا، اور جس نےٹھيك ٹھاك اندازہ كيا اورپھر راہ دكھائي، اور روزي دي اورغني كرديا.. اللہ تبارك وتعالى كا ارشاہے:
{وہ اللہ ہي ہے جس نے تمہارے لئے زمين كو ٹھرنے كي جگہ اور آسمان كو چھت بناديا، اور تمہاري صورتيں بنائيں اور بہت اچھي بنائيں، اور تمہيں عمدہ عمدہ چيزيں كھانےكو عطا فرمائيں يہي اللہ تمہارا پروردگارہے، پس بہت ہي بركتوں والا اللہ سارے جہان كي پرورش كرنےوالا} غافر ( 64 ) .
اےاللہ عظيم بادشاہي پر تيري حمد وثنا ہے... رب ذوالجلال كا فرمان ہے:
{تمام تعريفيں اس اللہ كےلئےہيں جس كي ملكيت ميں وہ سب كچھ ہے جو آسمانوں اور زمين ميں ہے} سبا ( 1 ) .
اے اللہ تيرا شكر ہے كہ تونےہميں دين اسلام كي ہدايت نصيب فرمائي اور ہم پر قرآن مجيد نازل فرمايا... اور اچھي اور پاكيزہ اشياء سےروزي عطا فرمائي... اور ہميں سب امتوں سےاچھي اوربہتر امت بنايا... اوربہت ساري نعمتوں سےنواز كرہميں عزت بخشي ... تيرے علاوہ كوئي بھي عبادت كےلائق نہيں ... اور حكم بھي تيرے ليے اور پيدا كرنا بھي تيرے لئے ... سارے كا سارا فضل تيرا ہے... اور ساري تعريفيں اورشكر تيرے لئے ہيں.. فرمان باري تعالي ہے:
{سب تعريفيں اس اللہ كےلئےہيں جو سب جہانوں كا پالنےوالا ہے، بہت رحم كرنےوالا بڑا مہربان ہے، يوم جزا كا مالك ہے، اے اللہ ہم صرف تيري عبادت كرتےہيں اور تجھ ہي سے مدد مانگتےہيں} الفاتحۃ ( 2-5 ) .

ديكھيں: كتاب اصول الدين الاسلامي تاليف: الشيخ محمد بن ابراہيم التويجري .
blogger