منگل

آزادی کا مفہوم

(( عن نعمان بن بشیر قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مثل المدھن فی حدود اللہ والواقع فیھا مثل قوم استھموا السفینۃ فصار بعضھم فی اسفلھا وصار بعضھم فی علاھا ۔ فکان الذی فی اسفلھا یمر بالماءعلی الذین فی اعلاھا فتاذوا بہ فاخذ فاسا فجعل ینقر اسفل السفینۃ فاتوہ فقالوا مالک ؟ قال تاذیتم بی ولا بدلی من الماءفان اخذوا علی یدیہ انجوہ ونجو انفسھم وان ترکوہ اھلکوہ واھلکوا انفسھم )) ( رواہ البخاری )
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ کی حدوں میں سستی کرنے والے اور ان کا ارتکاب کرنے والوں کی مثال ان لوگوں کی طرح ہے جو ایک ( بحری جہاز ) کشتی پر سوار ہوتے ہیں اور انہوں نے قرعہ اندازی کے ذریعے اپنی اپنی جگہ متعین کر لی کچھ لوگ کشتی کے نچلے حصے میں اور کچھ اوپر والے حصے میں چلے گئے وہ لوگ جو نچلے حصے میں تھے وہ اوپر سے پانی لے کر اوپر والوں کے پاس سے گزرتے تو انہیں اس کی تکلیف ہوتی ( جس کی بناءپر اوپر والوں نے نیچے والوں کو اوپر آنے سے روک دیا ) جس پر نیچے والوں نے کلہاڑا لے کر کشتی میں سوراخ کرنا چاہا تا کہ سمندر ( دریا ) کا پانی حاصل کر لیں ۔ اوپر والوں نے کہا تم کیا کر رہے ہو انہوں نے جواب دیا تمہیں میرے آنے سے تکلیف ہوتی ہے اور پانی کی مجھے بھی ضرورت ہے ۔ اگر وہ اس کا ہاتھ روک لیں تو اسے بھی بچالیں گے اور خود بھی بچ جائیں گے اور اگر اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں گے تو اسے بھی ہلاک کر ڈالیں گے اور خود بھی ہلاک ہو جائیں گے ۔ ( بخاری باب الامر بالمعروف ، مشکوٰۃ ) اسلام کسی کی آزادی سلب نہیں کرتا مگر اسے آزاد بھی نہیں چھوڑتا کہ جو چاہے کرتا رہے ۔ اپنی حدود میں رہتے ہوئے ہر چیز کو بڑھنے پھولنے کی اجازت ہے لیکن اگر تمام حدود کو پھلانگ کر اپنی مرضی کی جائے تو تباہی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا ۔ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور برائی سے روکنا یہ آزادی کے منافی نہیں ہے ۔ روشن خیال اور بے غیرتی کو آزادی سمجھ لیا ہے جو کہ درست نہیں ایسی آزادی جس میں کوئی پابندی نہ ہو وہ نقصان اور تباہی کا باعث بنتی ہے ان حدود کی پابندی کرنا لازم ہے جو شریعت نے متعین کی ہیں ۔
 

0 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں