منگل

آزادی کا مفہوم

(( عن نعمان بن بشیر قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مثل المدھن فی حدود اللہ والواقع فیھا مثل قوم استھموا السفینۃ فصار بعضھم فی اسفلھا وصار بعضھم فی علاھا ۔ فکان الذی فی اسفلھا یمر بالماءعلی الذین فی اعلاھا فتاذوا بہ فاخذ فاسا فجعل ینقر اسفل السفینۃ فاتوہ فقالوا مالک ؟ قال تاذیتم بی ولا بدلی من الماءفان اخذوا علی یدیہ انجوہ ونجو انفسھم وان ترکوہ اھلکوہ واھلکوا انفسھم )) ( رواہ البخاری )
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ کی حدوں میں سستی کرنے والے اور ان کا ارتکاب کرنے والوں کی مثال ان لوگوں کی طرح ہے جو ایک ( بحری جہاز ) کشتی پر سوار ہوتے ہیں اور انہوں نے قرعہ اندازی کے ذریعے اپنی اپنی جگہ متعین کر لی کچھ لوگ کشتی کے نچلے حصے میں اور کچھ اوپر والے حصے میں چلے گئے وہ لوگ جو نچلے حصے میں تھے وہ اوپر سے پانی لے کر اوپر والوں کے پاس سے گزرتے تو انہیں اس کی تکلیف ہوتی ( جس کی بناءپر اوپر والوں نے نیچے والوں کو اوپر آنے سے روک دیا ) جس پر نیچے والوں نے کلہاڑا لے کر کشتی میں سوراخ کرنا چاہا تا کہ سمندر ( دریا ) کا پانی حاصل کر لیں ۔ اوپر والوں نے کہا تم کیا کر رہے ہو انہوں نے جواب دیا تمہیں میرے آنے سے تکلیف ہوتی ہے اور پانی کی مجھے بھی ضرورت ہے ۔ اگر وہ اس کا ہاتھ روک لیں تو اسے بھی بچالیں گے اور خود بھی بچ جائیں گے اور اگر اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں گے تو اسے بھی ہلاک کر ڈالیں گے اور خود بھی ہلاک ہو جائیں گے ۔ ( بخاری باب الامر بالمعروف ، مشکوٰۃ ) اسلام کسی کی آزادی سلب نہیں کرتا مگر اسے آزاد بھی نہیں چھوڑتا کہ جو چاہے کرتا رہے ۔ اپنی حدود میں رہتے ہوئے ہر چیز کو بڑھنے پھولنے کی اجازت ہے لیکن اگر تمام حدود کو پھلانگ کر اپنی مرضی کی جائے تو تباہی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا ۔ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور برائی سے روکنا یہ آزادی کے منافی نہیں ہے ۔ روشن خیال اور بے غیرتی کو آزادی سمجھ لیا ہے جو کہ درست نہیں ایسی آزادی جس میں کوئی پابندی نہ ہو وہ نقصان اور تباہی کا باعث بنتی ہے ان حدود کی پابندی کرنا لازم ہے جو شریعت نے متعین کی ہیں ۔
 

blogger

مسنون اذکار مبارکہ

فضائل و فوائد ذکر الٰہی


آج جس پر فتن دور اور اقتصادی و معاشی بحران کے پرکٹھن مراحل سے ہم دو چار ہیں جس میں کتاب و سنت سے براہ راست راہنمائی کی ضرورت ہے لیکن ہم نے کتاب و سنت کو پسِ پشت ڈال کر صوفیا کے ملفوظات ، فیوض و برکات ، کشف و کرامات اور ان کے اوراد و وظائف کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ہے ۔ اور اس طرح محدثین کرام اور سلف صالحین کی دعوت توحید و سنت اور صوفیائے کرام اور ان کے متبعین کے معمولات کے مابین ایک وسیع خلیج حائل ہو گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امت دو طبقوں میں تقسیم ہو گئی ۔ ایک طبقہ جس کی راہ کتاب و سنت کی تعلیم شرک و بدعت کی بیخ کنی اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کا علم بلند کرنا تھا ۔
دوسرا طبقہ جس نے خانقاہی نظام درویشی ، ترک دنیا اور عملی طور پر جہاد کرنے کی بجائے صرف اوراد و وظائف تک اپنے آپ کو محدود کر لیا جس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ ایک بڑا طبقہ مساجد اور مدارس کی دعوتی سرگرمیوں سے ہٹ کر صالحین کی قبروں ان کے عرسوں اور آثار و تبرکات ، سماع و رقص سے وابستہ ہوگیا ۔ صالحین کی قبروں پر جو جھرمٹ نظر آ رہا ہے اور منکرات و فواحشات اور شرک و بدعات کا جو سیل عظیم رواں دواں ہے وہ سب اسی شخصیت پرستی اور خانقاہی نظام کی پیداوار ہے ۔ ستم کی حد یہ ہے کہ عامۃ الناس انہی خرافات و فرسودات ، شرک و بدعات کو اصل دین سمجھے ہوئے ہیں ۔ اور جو لوگ درحقیقت توحید و سنت کے علمبردار ہیں ان کو دشمن رسول سمجھتے ہیں یہ بہت بڑا المیہ ہے یہی ہماری ناکامی کا سبب ہے ۔

بقول شاعر 

نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری
کہ فقیر خانقاہی سے فقط اندوہ و دلگیری
تیرے دین و ادب سے آ رہی ہے بوئے رہبانی
اور یہی ہے مرنے والی امتوں کا عالم پیری

وظائف و اوراد کو ضرور اپنائیے مگر مسنون طرز عمل کے ساتھ ۔ ذکر الٰہی سے ہی انسان خود کو شیطان لعین سے بچا سکتا ہے ۔ من گھڑت اور شرک و بدعات پر مبنی وظائف سے کلی طور پر اجتناب کیجئے ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے دل دو چیزوں غفلت اور گناہ سے زنگ پکڑتا ہے اور دو چیزوں سے ہی زنگ دور کیا جا سکتا اور دل کو روشن کیا جا سکتا ہے ۔ استغفار اور ذکر الٰہی ۔
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کا قول ہے : ” ہر چیز کو چمکانے کیلئے کوئی نہ کوئی چیز ہوتی ہے لیکن دلوں کو ذکر الٰہی سے ہی چمکایا جا سکتا ہے ۔ “

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا یہ مقولہ ہے کہ ذکر مومن کی جنت ہے جنتی محض دنیا کی جنت میں داخل نہیں ہو گا بلکہ اخروی جنت میں بھی داخل ہو گا ۔ ایام اسیری اور قید و بند کے دنوں میں فرمایا کرتے تھے کہ دشمن میرا کیا بگاڑیں گے ؟ میری جنت تو میرے سینے میں ہے جہاں جاؤ ں ساتھ ہے ۔ قید و بند میری خلوت ہے قتل میرے لیے شہادت ہے اور جلاوطنی میری سیاحت ہے ۔ ایام اسیری میں سجدہ کے اندر کثرت سے یہ دعا فرمایا کرتے تھے ۔ 

(( اللھم اعنی علی ذکرک وشکرک وحسن عبادتک )) 

” الٰہی اپنے ذکر و شکر اور حسن عبادت پر میری مدد فرما ۔ “


علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ شیخ مجھ سے کہنے لگے محبوس وہ نہیں جسے قید کر دیا جائے ۔ بلکہ محبوس وہ ہے جس کا دل اپنے رب سے رک جائے ۔ اسیر وہ نہیں جو گرفتار ہو جائے بلکہ اسیر وہ ہے جو خواہشات کا اسیر ہو جائے ۔ ایک مرتبہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ شریف کی طرف سفر کرتے ہوئے جمدان پہاڑ سے گزرتے ہوئے ارشاد فرمایا ۔ 
” مغردون سبقت لے گئے آپ سے پوچھا گیا اللہ کے رسول مغردون کون لوگ ہیں ؟ فرمایا کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور عورتیں ۔ “ ( صحیح مسلم )

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ذکر الٰہی کے لیے کوئی قوم جب اور جہاں بیٹھتی ہے تو ملائکہ ان پر گھیرا ڈال لیتے ہیں اللہ کی رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے اور اللہ تعالیٰ ان کا اپنی مجلس میں تذکرہ فرماتے ہیں ۔ ( صحیح مسلم ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ کا ذکر کرنے والے اور نہ کرنے والے کی مثال زندہ اور مردہ کی سی ہے ۔
ایک روایت صحیحین میں ہے جسے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ عزوجل ارشاد فرماتے ہیں ۔
میں اپنے بندے کے ظن کے مطابق اس سے معاملہ کرتا ہوں جب مجھے یاد کرتا ہے میں علم کے لحاظ سے اس کے پاس ہوتا ہوں اگر مجھے دل میں یاد کرے تو میں دل میں اسے یاد کرتا ہوں مجلس میں یاد کرے تو میں اس سے بہتر مجلس میں یاد کرتا ہوں ۔ میری طرف بالشت آئے تو میں ہاتھ برابر آتا ہوں ۔ ہاتھ بھر آئے تو میں دو ہاتھ برابر قریب آتا ہوں چل کر آئے تو میں دوڑ کر آتا ہوں ۔

ترمذی شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : 

(( اذا مررتم بریاض الجنۃ فارتعوا قیل یا رسول اللہ وما ریاض الجنۃ قال حلق الذکر )) 

” جب تم جنت کے باغات سے گزرو تو وہاں سے کچھ کھایا کرو ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے استفسار کیا جنت کے کونسے سے باغات ہیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ذکر الٰہی کے حلقے ۔ 
ذاکروں میں وہ ذکر افضل ہے جو صرف تسبیح پر ہی نہ رہے بلکہ مجاہد افضل ہے جو مجاہد ہی نہ بنا پھرے بلکہ ذکر الٰہی کا خاص خیال رکھے ۔


قرآن حکیم میں ارشاد خداوندی ہے : 

(( یاَیُّہَا الَّذِینَ اٰمَنوا اِذَا لَقِیتُم فِئَۃً فَاثبُتُوا وَاذکُرُوا اللّٰہَ کَثِیرًا لَّعَلَّکُم تُفلِحُونَ )) ( الانفال : 53 ) 

” اے ایمان والو ! جب تم کسی مخالف فوج سے بھڑ جاؤ تو ثابت قدم رہو اور بکثرت اللہ کو یاد کرو تا کہ تمہیں کامیابی حاصل ہو ۔ “


ذکر کثیر کے متعلق متفرق مقامات پر اللہ کریم نے ذکر فرمایا ہے : 

(( وَاذکُرنَ مَا یُتلٰی فِی بُیُوتِکُنَّ مِن اٰیٰتِ اللّٰہِ وَالحِکمَۃِ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ لَطِیفًا خَبِیرًا )) ( الاحزاب : 34 )

” اور تمہارے گھروں میں اللہ کی جو آیتیں اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جو احادیث پڑھی جاتی ہیں ان کا ذکر کرتی رہو یقینا اللہ تعالیٰ لطف کرنے والا خبردار ہے ۔ “


مزید ارشاد فرمایا : 

(( وَالذَّاکِرِینَ اللّٰہَ کَثِیرًا وَّالذّٰکِرٰتِ اَعَدَّ اللّٰہُ لَہُم مَّغفِرَۃً وَّاَجرًا عَظِیمًا )) ( الاحزاب : 35 ) 

” بکثرت اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں ان ( سب کے ) لیے اللہ تعالیٰ نے ( وسیع مغفرت اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے ۔ “

امام بیہقی رحمہ اللہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ” انسان پر جو گھڑی خالی گزری وہی قیامت کو حسرت کا موجب ہوگی ۔ “
امام بیہقی رحمہ اللہ نے عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے مرفوعا حدیث ذکر فرمائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے : ہر شئے کیلئے صیقل ہے دلوں کی صیقل ذکر الٰہی ہے ۔ عذاب الٰہی سے بچانے کیلئے انسان کیلئے ذکر الٰہی سے زیادہ کوئی چیز بہتر نہیں ۔ صحابہ رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا جہاد فی سبیل اللہ سے بھی ؟ فرمایا خواہ تلاور مارتے مارتے خود ہی شہید و پرزہ پرزہ کیوں نہ ہو جائے ۔ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ مجھے شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے پاس جانے کا اتفاق ہوا آپ نے نماز فجر ادا کی پھر وہیں بیٹھ گئے تقریبا دوپہر تک اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے رہے ذکر سے فارغ ہو کر میری طرف التفاف فرماتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں یہ تو میرا ناشتہ ہے اگر یہ ناشتہ نہ کروں تو یقینا میری قوت سلب ہو جائے ۔ ( ذکر الٰہی حافظ ابن القیم الجوزی رحمہ اللہ )
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ” ہیبت و جلال الٰہی سے جو تم اس کی تہلیل و تکبیر اور تحمید کرتے ہو وہ اللہ کے عرش کے گردونواح گھومنے لگ جاتا ہے اور شہد کی مکھیوں کی طرح آواز کرتی ہیں اور اپنے فاعل کو یاد کرتی ہیں کیا تمہیں پسند نہیں کہ تمہیں بھی کوئی چیز عرش الٰہی کے پاس یاد کرے اور تمہارا تذکرہ کرے ؟ ( مسند امام احمد )
ذکر الٰہی سے اللہ جل شانہ ذاکر کیلئے جنت میں درخت لگا دیتے ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” معراج کی رات ابراہیم علیہ السلام سے میری ملاقات ہوئی تو فرمانے لگے اے محمد میری طرف سے اپنی امت کو سلام دینا اور کہنا جنت کی زمین بھی نہایت اعلیٰ ہے اور اس کا پانی بھی میٹھا ہے اور بے نمکین ہے ۔ مگر وہ صاف چٹیل میدان اور اس کے پودے ہیں ۔ سبحان اللہ ، الحمد للہ ، لا الہ الا اللہ اللہ اکبر ( ترمذی )
ذکر الٰہی سے جو انعامات حاصل ہوتے ہیں وہ دیگر اعمال سے نہیں ہوتے ۔ چنانچہ صحیحین میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جو شخص روزانہ سو مرتبہ ” لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شی قدیر “پڑھے اسے دس غلام آزاد کرنے کا ثواب ملتا ہے ۔ سو نیکیاں اس کے نامہ اعمال میں لکھ دی جاتی ہیں اور صبح سے شام تک وہ شیطان کے شر سے محفوظ رہتا ہے اور اس کے اعمال سے بڑھ کر کسی کا عمل افضل نہیں ہوتا الا یہ کہ اس سے بڑھ کر کوئی عمل کرے ۔ اور جو شخص دن میں سو مرتبہ سبحان اللہ وبحمدہ کہے اس کے تمام گناہ خواہ وہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں معاف ہو جاتے ہیں ۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والے اور نہ کرنے والے کی مثال زندہ اور مردہ کی مثال ہے ۔

ذکر الٰہی سے انحراف اپنے نفس پر ظلم کرنے کے مترادف ہے ، قرآن حکیم میں ارشاد ہے : 

(( وَلَا تَکُونُوا کَالَّذِینَ نَسُوا اللّٰہَ فَاَنسٰہُم اَنفُسَہُم اُولیکَ ھُمُ الفٰسِقُونَ )) ( حشر :19 ) 

” اور تم ان لوگوں کی طرح مت ہو جانا جنہوں نے اللہ ( کے احکام ) کو بھلا دیا تو اللہ نے بھی انہیں اپنی جانوں سے غافل کر دیا ۔ اور ایسے ہی لوگ نافرمان ( فاسق ) ہوتے ہیں ۔ “


جو لوگ ذکر الٰہی سے اعراض اور انحراف کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کی معیشت کو تنگ کر دیتا ہے ۔ ارشاد ربانی ہے : 

(( وَمَن اَعرَضَ عَن ذِکرِی فَاِنَّ لَہ مَعِیشَۃً ضَنکًا وَّنَحشُرُہ یَومَ القِیٰمَۃِ اَعمٰیo قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرتَنِی اَعمٰی وَقَد کُنتُ بَصِیرًا oقَالَ کَذٰلِکَ اَتَتکَ اٰیٰتُنَا فَنَسِیتَہَا وَکَذٰلِکَ الیَومَ تُنسٰی )) ( طٰہ : 124-126 ) 

” اور ( ہاں ) جو میری یاد سے روگردانی کرے گا اس کی زندگی تنگی میں رہے گی اور ہم اسے روز قیامت اندھا کر کے اٹھائیں گے ۔ وہ کہے گا یا الٰہی مجھے تو نے اندھا بنا کر کیوں اٹھایا حالانکہ میں تو دیکھتا تھا ۔ ( جو اب ملے گا کہ ) اسی طرح ہونا چاہئیے تھا تو میری آئی ہوئی آیتوں کو بھول گیا تو آج تو بھی بھلا دیا جاتا ہے ۔ “

اس تنگی سے بعض نے عذاب قبر اور بعض نے وہ قلق و اضطراب ، بے چینی اور بے کلی مراد لی ہے جس میں اللہ کی یاد سے غافل بڑے بڑے دولت مند مبتلا رہتے ہیں ۔ اس تنگ زندگی کی عذاب برزخ سے بھی تفسیر کی گئی ہے ۔ صحیح یہ ہے کہ دینوی معیشت کو بھی شامل ہے اور برزخی حالت کو بھی ۔ کیونکہ برزخی حالت میں انسان دنیا و برزخ دونوں جہان کی تکلیف برداشت کرتا ہے اور آخرت میں بھی عذاب میں ڈال کر فراموش کیا جائے گا ۔ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کا ذکرکرتے تھے ۔ ( بخاری کتاب الاذان ، مسلم کتاب الحیض باب ذکر اللہ فی حال الجنابۃ ص162 ج1 )
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ذکر الٰہی کیلئے کوئی مقرر نہیں ذکر کرنے والا جب جس وقت اور جس حالت میں چاہے اللہ کا ذکر کر سکتا ہے ۔
عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک شخص نے عرض کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اسلام کے احکام کی مجھ پر کثرت ہو چکی ہے ، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کوئی ( آسان سی ) چیز بتا دیں جس پر میں عمل کرتا رہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” تیری زبان ہمیشہ اللہ کے ذکر سے تر رہنی چاہئیے ۔ ( ابن ماجہ کتاب الادب باب افضل الذکر ص277 مسند احمد ص188 ج4 )
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : افضل ذکر لا الہ الا اللہ ہے اور افضل دعا الحمد للہ ہے ۔ ( ابن ماجہ کتاب الادب باب فضل الحامدین ص 278 ، مستدرک ص 498 ج 1 )
کلمہ توحید کا ورد تمام اذکار سے بہتر ہے اور الحمد للہ کا ورد تمام دعاؤ ں سے بہتر ہے اس لیے کہ یہ دونوں کلمے اللہ تعالیٰ کی توحید اور تحمید پر مشتمل ہیں ۔ بعض حضرات کلمہ افضل الذکر لا الہ الا اللہ میں محمد رسول اللہ کا اضافہ بھی کرتے ہیں جو کسی حدیث سے ثابت نہیں ، نہ ہی مذکورہ حدیث میں اس کا ذکر ہے ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جو قوم اللہ کا ذکر کرتی ہے تو فرشتے انہیں اپنے گھیرے میں لے لیتے ہیں اور رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے اور ان پر سکونت نازل ہوتی ہے اللہ تعالیٰ ( بطور فخر ) ان کا تذکرہ اپنے فرشتوں سے کرتا ہے جو اس کے پاس ہوتے ہیں ۔ ( مسلم کتاب الذکر والدعاء )
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ” جو لوگ اپنی مجلس میں اللہ کا ذکر نہیں کرتے اور نہ ہی اپنے نبی ( محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) پر درود بھیجتے ہیں تو ایسی مجلس باعث حسرت اور نقصان دہ ہوتی ہیں ۔ اللہ اگر چاہے تو انہیں عذاب دے اور اگر چاہے تو معاف کر دے ۔ ( مسند احمد ص 246 ج 2 )
حافظ ابن القیم الجوزی رحمہ اللہ نے ذکر الٰہی کے بہت سے فوائد اپنی کتاب ذکر الٰہی میں تحریر فرمائے ہیں جنہیں انتہائی اختصار کے ساتھ قارئین کرام کی نظر کیا جاتا ہے ۔ ذکر الٰہی شیطان کو ذلیل و رسوا کر دیتا ہے ، ذکر الٰہی سے اللہ راضی ہو جاتا ہے ، ذکر الٰہی غموں اور پریشانیوں کا علاج ہے ، ذکر الٰہی سے دل میں مسرت اور خوشی پیدا ہوتی ہے ، ذکر الٰہی سے بدن کو تقویت ملتی ہے ، ذکر الٰہی سے انابت ( رجوع الی اللہ ) حاصل ہوتی ہے ، ذکر الٰہی سے تقرب الٰہی حاصل ہوتا ہے ، ذکر الٰہی سے معرفت کے دروازے کھل جاتے ہیں ، ذکر الٰہی سے دل میں اللہ تعالیٰ کی معرفت کے ساتھ ساتھ ہیبت اور عظمت و توقیر و جلال کا سکہ بیٹھتا ہے ، ذکر الٰہی سے اللہ عزوجل آسمانوں میں ذاکر کا تذکرہ کرتے ہیں ، ذکر الٰہی سے دل کو زندگی اور تازگی نصیب ہوتی ہے ، ذکر الٰہی سے دل کا زنگ اتر جاتا ہے ، ذکر الٰہی سے اللہ تعالیٰ کا جن کلمات سے ذکر کرتا ہے وہی اذکار مصائب و آلام اور تکلیف کے وقت اس کا ذکر کرنے لگتے ہیں ۔ ذکر الٰہی سے اللہ تنگدستیاں دور فرما دیتا ہے ، ذکر الٰہی سے دل کو قرار اور اطمینان نصیب ہوتا ہے ، ذکر الٰہی سے انسان لغویات سے محفوظ رہتا ہے ، ذکر الٰہی کی مجالس فرشتوں کی مجلسیں ہوتی ہیں ، ذکر الٰہی سے ذاکر نیک اور سعید ہو جاتا ہے ، ذکر الٰہی کی وجہ سے انسان قیامت کے دن حسرت سے مامون رہے گا ، ذاکر کو ذکر الٰہی کی برکت سے وہ نعمتیں مل جاتی ہیں جو مانگ کر لینے سے بھی نہیں ملتیں ، ذکر الٰہی تمام تر عبادات سے آسان اور افضل ہے ، ذکر الٰہی سے جنت میں درخت لگتے ہیں ، ذکر الٰہی سے دنیا میں بھی نور قبر میں بھی نور ، آخرت میں بھی نور حاصل ہو گا ۔ ذکر الٰہی سے دل بیدار رہتا ہے ، ذکر الٰہی قرب خداوندی اور معیشت الٰہی کا ذریعہ ہے ، ذکر الٰہی صدقہ و جہاد سے افضل ہے ، ذکر راس الشکر ہے ، ذکر الٰہی سے دل کی قساوت نرمی میں تبدیل ہو جاتی ہے ، ذکر الٰہی دل کی دوا اور قلب کی شفا ہے ، ذکر الٰہی محبت الٰہی کا حصول ہے ، ذکر الٰہی ہر قسم کے شکر سے اعلیٰ ترین شکر ہے جو مزید نعمت کا باعث ہے ، ذکر الٰہی اللہ کی رحمتوں اور فرشتوں کی دعاؤ ں کا موجب ہے ، مجالس ذکر جنت کے باغات ہیں ، مجالس ذکر فرشتوں کی مجلسیں ہیں ، اہل ذکر سے اللہ تعالیٰ ملائکہ میں فخر فرماتے ہیں ، ذکر الٰہی پر ہمیشگی کرنے والا مسکراتے ہوئے جنت میں جائے گا ۔ ( قول ابودرداء رضی اللہ عنہ )
تمام اعمال ذکر الٰہی کو دوام اور ہمیشہ باقی رکھنے کیلئے ہیں ، مقابلہ اعمال میں ذکر الٰہی کرنے والے جیت جائیں گے ۔ ذکر انسان اور جہنم کے درمیان دیوار بن جاتا ہے ، فرشتے ذاکر کیلئے دعائے مغفرت کرتے ہیں جیسا کہ تائب کیلئے دعاءمغفرت فرماتے ہیں ۔ کثرت کے ساتھ ذکر کرنے سے نفاق سے نجات نصیب ہو جاتی ہے ، ذکر الٰہی کی لذت تمام لذات سے بہتر لذت ہے ، کثرت ذکر سے گواہوں کی کثرت ہوتی ہے ۔ ذکر الٰہی سے شیطانوں میں گھرے ہوئے آدمی کو نجات مل جاتی ہے ۔
ذکر الٰہی سے بے حد قوت حاصل ہوتی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لخت جگر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے چکی کی مشقت اور دیگر معمولات کی زیادتی و تکالیف کی شکایت کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خادم طلب فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ کو خادم دینے کی بجائے رات کو سوتے وقت 33 مرتبہ سبحان اللہ ، 33 بار الحمد للہ اور چونتیس بار اللہ اکبر پڑھنے کا ارشاد فرمایا ۔ اور فرمایا خادم کی بجائے یہ کلمے تمہارے لیے بہتر ہیں ۔
اگر ہم غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے ہمیں ہر ، لمحہ ہر موڑ پر ذکر الٰہی کا ہی درس دیا ہے ۔ گھر سے نکلیں تو دعا بازار جائیں تو دعا ، سواری پر سوار ہوں تو دعا ، شہر میں داخل ہوں تو دعا ، پانی پئیں تو دعا ، کھانا کھانے سے فارغ ہوں تو دعا ، مسجد میں داخل ہوں تو دعا اور نماز تو دعاؤ ں کا مجموعہ ہے ۔ مسجد سے باہر نکلیں تو دعا لباس پہنیں تو دعا ، الغرض جملہ عروسی میں جانے کی دعا ۔ دین اسلام نے انسان کو کسی بھی موڑ پر بے رہبر و نہیں چھوڑا ہر مقام پر ذکر الٰہی کی تلقین کی ہے ۔ لہٰذا ہمیں چاہئیے ہم ہمہ وقت ذکر الٰہی میں مشغول و مصروف رہیں اسی میں کامیابی ہے ۔

قرآن حکیم میں ارشاد ربانی ہے : 

(( والذاکرین اللہ کثیرا والذاکرات اعد لھم مغفرۃ واجرا عظیما )) 

” کثرت سے اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے والوں اور یاد کرنے والیوں کیلئے رب کائنات نے بخشش کے ساتھ اجر عظیم تیار کر رکھا ہے ۔ “ 
اس لئے فارغ اوقات میں ہمیں اللہ سے لو لگانی چاہئیے ۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا : 

(( فاذا فرغت فانصب والی ربک فارغب )) ( الشرح ، 7,8 ) 

” پس جب تو فارغ ہو تو عبادت میں محنت کر اور اپنے پروردگار ہی کی طرف دل لگا ۔ “ 

اللہ تعالیٰ ہمیں ذکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
blogger

قیامت کے روز گواہی

وجاہدوا في اللہ حق جہادہ ھو اجتبکم وما جعل عليکم في الدين من حرج ملۃ ابيکم ابرہيم ھو سمکم المسلمين من قبل وفي ھذا ليکون الرسول شہيدا عليکم وتکونوا شہدآء علي الناس فاقيموا الصلو واتوا الزکو واعتصموا باللہ ھو مولکم فنعم المولي ونعم النصير ( الحج )
” اور اللہ کی راہ میں ایسی کوشش کرو جیسا کہ اس کا حق ہے اس نے تمہیں منتخب کیا اور دین کے بارے میں تم پر کوئی تنگی نہیں کی وہ دین تمہارے باپ ابراہیم کا دین ہے انہوں نے ہی اس سے پہلے اور اس میں تمہارا نام مسلمان رکھا تا کہ رسول تم پر اور تم عام لوگوں پر گواہ بنو ۔ پس تم نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور اللہ کے احکام کو مضبوطی سے تھامے رکھو وہی تمہارا آقا ہے پس اچھا ہے آقا اور اچھا ہے مددگار ۔ “
رب کریم نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ وہ دین کی سربلندی اور اپنی نجات کے لئے ہر وہ کوشش کریں جس کا اللہ نے حکم دیا ہے ، یہاں جہاد سے مراد صرف سرحدوں کی حفاظت کرنا ہی نہیں ہے بلکہ نظریاتی ، اخلاقی اور دینی روایات کو قائم کرنے اور قائم رکھنے کے لئے بھی جہاد کرنا ہے اس کام کے لئے اللہ نے مسلمانوں کو منتخب کیا ہے اور فرما دیا کہ تم پر کوئی تنگی نہیں ڈالی بلکہ ہر مسلمان اپنی ہمت کے مطابق اس کوشش میں لگا رہے کہ دین کا غلبہ ہو جائے ۔ یہی وہ دین ہے جس کا پرچار حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی کیا انہوں نے ہی تمہارا نام مسلمان رکھا ۔ مسلمانوں کی یہ عظمت ہے کہ اللہ نے انہیں گواہ بنایا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت پر گواہ ہوں گے ۔
قیامت کے دن جب تمام انبیاءکرام اور ان کی امتیں اللہ کے دربار میں حاضر ہوں گے تو امت محمدیہ کے افراد اس بات کی گواہی دیں گے کہ اسے اللہ ان لوگوں نے اپنے نبی کے احکامات کی مخالفت کی تھی تو وہ لوگ کہیں گے کہ آپ ہمارے خلاف کس طرح گواہی دے سکتے ہیں نہ آپ لوگوں نے ہمارا زمانہ دیکھا اور نہ ہی آپ ہمارے نبی کے امتی ہیں تو امت محمدیہ کے افراد جواب دیں گے اللہ نے ہمارے نبی پر قرآن نازل کیا جس میں لکھا ہے کہ فلاں قوم نے اپنے نبی کے احکامات اور ان کی تعلیمات کی مخالفت کی جس پر ہمارا ایمان ہے اس بنا پر ہم گواہی دے رہے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گواہی دیں گے کہ میری امت سچ کہتی ہے اے امت محمدیہ کے افراد اس عظیم مرتبے کو حاصل کرنے کے لئے تم نماز قائم کرو ، زکوٰۃ ادا کرو اور اللہ کے احکامات کو مضبوطی سے تھام لو ۔ وہی تمہارا بہترین آقا و مددگار ہے ۔ اللہ کی توفیق سے سورۃ الحج کا درس مکمل ہوا 

blogger

ہفتہ

موت كے فرشتے كا استہزاء كرنا

كچھ عرصہ قبل ميرے ايك جاننے والے كا قريبى فوت ہو گيا، اور اس سے كچھ مدت بعد اس كا ايك اور قريبى فوت ہو گيا، طويل عرصہ بعد جب ہم ان كے متعلق باتيں كر رہے تھے تو ميں نے بغير ارادہ و قصد كيے ان كے متعلق بطور مزاح كہا لگتا ہے تمہارے خاندان اور موت كے فرشتے كے درميان كوئى دشمنى ہے، تو كيا يہ اللہ كے ساتھ كفر شمار تو نہيں ہوتا؛ كيونكہ ميں نے يہ بات اللہ كے فرشتوں ميں سے ايك فرشتے كے متعلق بات كہى تھے آيا يہ كفر ہے يا كچھ اور، مجھے كيا كرنا چاہيے ؟
الحمد للہ:
مسلمان كے ليے اپنى زبان كى حفاظت كرنا واجب ہے، اس ليے اسے زبان سے كوئى ايسى بات نہيں نكالنى چاہئے جو اللہ كے غضب كا باعث ہو، كيونكہ انسان كوئى اپنى زبان سے ايسى بات نكال ديتا ہے جس كے متعلق اس كا گمان بھى نہيں ہوتا كہ اس كى كوئى وقعت ہو گى اور وہ اس كى ہلاكت اور عذاب كا باعت بن جاتا ہے، اللہ اس سے محفوظ ركھے.
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" بندہ كوئى كلمہ نكالتا ہے جس پر غور نہيں كرتا جس سے وہ آگ ميں گر جاتا ہے جو مشرق كے درميان فاصلہ سے بھى زيادہ ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 6477 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2988 ).
اور ترمذى كى روايت ميں ہے:
" آدمى كوئى كلمہ كہتا ہے جس ميں كوئى حرج نہيں سمجھتا اور وہ اس كى بنا پر ستر برس تك آگ ميں جا گرتا ہے "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 2314 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور بلال مزنى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم ميں كوئى ايك ايسا كلمہ كہتا ہے جو اللہ كى ناراضگى كا باعث ہوتا ہے، اور وہ اس كے متعلق گمان بھى نہيں كرتا كہ وہ اسے كہاں لے جائيگا، تو اللہ تعالى اس كے باعث قيامت تك ناراضگى لكھ ديتا ہے "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 2319 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں صحيح قرار ديا ہے.
فرشتوں پر ايمان ركھنا اور ان كى تعظيم اور بزرگى ايمان كے چھ اركان ميں شامل ہوتا ہے، اور پھر موت كا فرشتہ تو وہى كچھ كرتا ہے جو اللہ اسے حكم ديتا ہے، جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ اور وہى اپنے بندوں كے اوپر غالب و برتر ہے، اور تم پر نگہداشت ركھنے والے بھيجتا ہے يہاں تك كہ جب تم ميں كسى كو موت آ پہنچتى ہے اس كى روح ہمارے بھيجے ہوئے فرشتے قبض كر ليتے ہيں اور وہ ذرا كوتاہى نہيں كرتے }الانعام ( 61 ).
يہ فرشتے تو اللہ كى جانب سے پرحكمت تقدير كے تم پر مقرر ہيں نہ كہ يہ كوئى دشمنى اور بدلہ لينے يا انتقام كى وجہ سے ہے ـ اللہ تعالى اس سے بلند و بالا اور منزہ ہے ـ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ كہہ ديجئے تمہيں موت كا فرشتہ فوت كريگا جو تم پر مقرر كيا گيا ہے، پھر تم سب اپنے پروردگار كى طرف لوٹائے جاؤگے }السجدۃ ( 11 ).
اور پھر اہل علم نے بيان كيا ہے كہ فرشتوں كے ساتھ استہزاء كرنا يا كسى ايك فرشتے كا استہزاء كفر اور دين اسلام سے خارج ہونا ہے، اس كى دليل ميں يہ آيت پيش كرتے ہيں:
{ اگر آپ ان سے پوچھيں تو صاف كہہ دينگے كہ ہم تو يونہى آپس ميں ہنسى مذاق كر رہے تھے، كہہ ديجئے كہ اللہ اور اس كى آيات اور اس كا رسول ہى ہنسى مذاق كے ليے رہ گئے ہيں ؟ }
{ تم بہانے نہ بناؤ يقينا تم نے ايمان كے بعد كفر كيا ہے، اگر ہم تم ميں سے كچھ لوگوں سے درگزر بھى كر ليں تو كچھ لوگوں كو ان كے جرم كى سنگين سزا بھى ديں گے }التوبۃ ( 65 - 66 ).
ابن حزم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" بالنص يہ ثابت ہے كہ جو كوئى بھى اللہ تعالى، يا كسى فرشتے يا كسى نبى ( عليہ السلام ) يا قرآن مجيد كى آيت يا دين كے كسى فريضہ جو كہ سب اللہ تعالى كى آيات ہيں دليل پہنچ جانے كے بعد استہزاء اور مذاق كريگا تو وہ كافر ہے " انتہى
ديكھيں: الفصل فى الملل و الاھواء و النحل ( 3 / 142 ).
اور ان كا يہ بھى كہنا ہے:
" ہر وہ شخص جو اللہ تعالى پر سب و شتم كرے، يا اس استہزاء كرے، يا كسى فرشتے پر سب و شتم يا اس كا استہزاء كرے، يا كسى نبى پر سب و شتم كرے يا استہزاء كرے، يا اللہ كى آيات ميں سے كسى آيات كے ساتھ استہزاء اور اس پر سب و شتم كرے، سب اسلامى قوانين اور قرآن مجيد اللہ كى آيات ہيں تو وہ اس كے ساتھ كافر ہو جائيگا، اور وہ مرتد ہے اس كا حكم بھى مرتد والا ہے " انتہى
ديكھيں: المحلى ( 11 / 413 ).
اور ابن نجيم حنفى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" كسى فرشتے كى عيب جوئى كرنے يا اس كى توہين كرنے سے كافر ہو جائيگا " انتہى
ديكھيں: البحر الرائق ( 5 / 131 ).
بلكہ بعض علماء كرام نے تو يہ بيان كيا ہے كہ اگر كوئى شخص ايسى كلام كرے جس ميں صرف استہزاء اور سخريہ محسوس ہو تو وہ كافر ہو جائيگا.
ابن نجيم حنفى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اور وہ كسى دوسرے كو يہ بات كہنے سے بھى كافر ہو جائےگا كہ: ميں تجھے اس طرح ديكھتا اور سمجھتا ہوں جيسے كہ موت كا فرشتہ ہو " بعض كے ہاں اور اكثر كے ہاں اس ميں اختلاف ہے " انتہى
آپ نے جو كلام كى ہے اس ميں موت كے فرشتے سے كچھ نہ كچھ استہزاء پايا جاتا ہے، اس ليے آپ كو اس پر توبہ و استغفار كرنى چاہيے، اور اللہ سے معافى طلب كرنى چاہيے، اور آئندہ عزم كريں كہ اس طرح كى بات دوبارہ نہيں كرينگے، اور كلمہ شہادت پڑھ كر اپنے ايمان كى تجديد كريں، اور اعمال صالحہ كثرت سے كريں ـ صدقہ وغيرہ ـ اللہ سبحانہ و تعالى توبہ كرنے والے كى توبہ قبول فرماتا ہے.
واللہ اعلم .

الاسلام سوال و جواب

blogger

منگل

شب معراج میں نماز کس طرح فرض کی گئی؟

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اللہ نے جب نماز فرض کی تھی تو دو، دو رکعتیں فرض کی تھیں، حضر میں (بھی) اور سفر میں (بھی)، تو سفر کی نماز (اپنی اصلی حالت پر) قائم رکھی گئی اور حضر کی نماز میں زیادتی کر دی گئی۔
صحیح بخاری
حدیث نمبر: 229
blogger

شب معراج میں نماز کس طرح فرض کی گئی؟

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کیا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ایک شب) میرے گھر کی چھت کھولی گئی اور میں مکہ میں تھا، پھر جبرائیل علیہ السلام اترے اور انھوں نے میرے سینہ کو چاک کیا، پھر اسے زمزم کے پانی سے دھویا، پھر ایک طشت سونے کا حکم و ایمان سے بھرا ہوا لائے اور اسے میرے سینے میں ڈال دیا، پھر سینے کو بند کر دیا۔ اس کے بعد میرا ہاتھ پکڑ لیا اور مجھے آسمان پر چڑھا لے گئے تو جب میں آسمان دنیا پر پہنچا تو جبرائیل علیہ السلام نے آسمان کے داروغہ سے کہا کہ (دروازہ) کھول دو تو اس نے کہا یہ کون ہے؟ وہ بولے کہ یہ جبرائیل ہے۔ پھر اس نے کہا کیا تمہارے ساتھ کوئی (اور بھی) ہے؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا ہاں! میرے ہمراہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ پھر اس نے کہا کیا وہ بلائے گئے ہیں؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا ہاں پس جب دروازہ کھول دیا گیا تو ہم آسمان دنیا کے اوپر چڑھے، پس یکایک میری ایک ایسے شخص پر (نظر پڑی) جو بیٹھا ہوا تھا، اس کی دائیں جانب کچھ لوگ تھے اور اس کی بائیں جانب (بھی) کچھ لوگ تھے۔ جب وہ اپنے دائیں جانب دیکھتے تو ہنس دیتے اور جب بائیں طرف دیکھتے تو رو دیتے۔ پھر انھوں نے (مجھے دیکھ کر) کہا مرحبا (خوش آمدید) نیک پیغمبر اور نیک بیٹے میں نے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ تو انھوں نے کہا کہ یہ آدم علیہ السلام ہیں اور جو لوگ ان کے داہنے اور بائیں ہیں، ان کی اولاد کی روحیں ہیں۔ دائیں جانب جنت والے ہیں اور بائیں جانب دوزخ والے۔ اسی سبب سے جب وہ اپنی دائیں جانب نظر کرتے ہیں تو ہنس دیتے ہیں اور جب بائیں طرف دیکھتے ہیں تو رونے لگتے ہیں۔ یہاں تک کہ مجھے دوسرے آسمان تک لے گئے اور اس کے داروغہ سے کہا کہ دروازہ کھولو تو ان سے داروغہ نے اسی قسم کی گفتگو کی جیسے پہلے نے کی تھی۔ پھر دروازہ کھول دیا گیا۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں پھر سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے ذکر کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمانوں میں آدم علیہ السلام، ادریس، موسیٰ، عیسیٰ اور ابراہیم علیہ السلام کو پایا اور (اور ان کے ٹھکانے بیان نہیں کیے، صرف اتنا کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے) آدم علیہ السلام کو آسمان دنیا پر اور ابراہیم علیہ السلام کو چھٹے آسمان پر پایا۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب جبرائیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر ادریس علیہ السلام کے پاس سے گزرے تو انھوں نے کہا خوش آمدید نیک پیغمبر اور نیک بھائی۔ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (میں نے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ تو جبرائیل علیہ السلام نے کہا یہ ادریس علیہ السلام ہیں، پھر میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انھوں نے مجھے دیکھ کر کہا خوش آمدید نیک پیغمبر اور نیک بھائی میں نے (جبرائیل سے) پوچھا یہ کون ہیں؟ تو جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ یہ موسیٰ علیہ السلام ہیں، پھر میں عیسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انھوں نے کہا خوش آمدید نیک پیغمبر اور نیک بھائی میں نے پوچھا یہ کہ کون ہیں؟ تو جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ یہ عیسیٰ علیہ السلام ہیں، پھر میں ابراہیم علیہ السلام کے پاس گزرا تو انھوں نے کہا خوش آمدید نیک پیغمبر اور نیک بیٹے میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ یہ ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ (راوی نے) کہا کہ سیدنا ابن عباس اور ابوحبہ انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر مجھے اور اوپر لے جایا گیا یہاں تک کہ میں ایک ایسے بلند و بالا مقام پر پہنچا جہاں (فرشتوں کے) قلم (چلنے) کی آواز میں سنتا تھا۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر اللہ تعالیٰ نے میری امت پر پچاس نمازیں فرض کیں۔ پس میں ان کے ساتھ لوٹا یہاں تک کہ جب موسیٰ علیہ السلام پر گزرا تو موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر کیا فرض کیا ہے؟ میں نے کہا کہ پچاس نمازیں فرض کی ہیں۔ انھوں نے (یہ سن کر) کہا اپنے پروردگار کے پاس لوٹ جائیے، اس لیے کہ آپ کی امت (اس قدر عبادت کی) طاقت نہیں رکھتی۔ پس میں لوٹ گیا تو اللہ نے اس کا ایک حصہ معاف کر دیا۔ پھر میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس لوٹ کر آیا اور کہا کہ اللہ نے اس کا ایک حصہ معاف کر دیا ہے، پھر موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ اپنے پروردگار سے رجوع کیجئیے، کیونکہ آپ کی امت (اس کی بھی) طاقت نہیں رکھتی۔ پھر میں نے رجوع کیا تو اللہ نے ایک حصہ اس کا (اور) معاف کر دیا پھر میں ان کے پاس لوٹ کر آیا (اور بتایا) تو وہ بولے کہ آپ اپنے پروردگار کے پاس لوٹ جائیے کیونکہ آپ کی امت (اس کی بھی) طاقت نہیں رکھتی، چنانچہ میں نے پھر اللہ تعالیٰ سے رجوع کیا تو اللہ نے فرمایا: (اچھا) یہ پانچ (مقرر کی جاتی) ہیں اور یہ (درحقیقت باعتبار ثواب کے) پچاس ہیں اور میرے ہاں بات بدلی نہیں جاتی۔ پھر میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس لوٹ کر آیا، تو انھوں نے کہا کہ پھر اپنے پروردگار سے رجوع کیجئیے۔ میں نے کہا (اب) مجھے اپنے پروردگار سے (باربار کہتے ہوئے) شرم آتی ہے، (پھر جبرائیل مجھے لے کر چلے اور سدرۃالمنتہیٰ تک پہنچایا) اور اس پر بہت سے رنگ چھا رہے تھے، (میں نہیں جانتا کہ وہ کیا تھے)۔ پھر مجھے جنت میں لے جایا گیا تو (کیا دیکھتا ہوں کہ) اس میں موتیوں کے ہار ہیں اور وہاں کی مٹی مشک ہے۔
صحیح بخاری
حدیث نمبر: 228
blogger